ڈیرہ اسماعیل خان کے سکول میں درحقیقت کیا ہوا تھا؟


الیان کی عُمر دس سال ہے اور ذہنی طور پر تھوڑا سا کمزور بچّہ ہے، وہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک اعلٰی درجے کے سکول میں پانچویں جماعت کا طالبعلم ہے اس کے کلاس میں حسن فہیم نام کا ایک اور بچّہ بھی پڑھتا ہے۔ جس کا والد مقامی ہسپتال میں ڈاکڑ ہے، چونکہ الیان کا والد فوج میں ہے اس لئے اس کے ساتھی حسن نے اس کے سامنے معصومیت اور نا سمجھی کی وجہ سے ایک مخصوص طبقے میں گونجتا وہ نعرہ لگاتا جسے عام طور پر نہ ہی پسندیدگی ملی اور نہ مقبولیت۔

اس پر الیان کو غصہ آیا اور دونوں بچّے ایک دوسرے کے ساتھ لڑ پڑے اور ایک دوسرے کے چہروں کو معمولی زخمی کیا الیان کی والدہ کو اطلاع ملی تو وہ فورًا سکول پہنچی جہاں اس نے بچّے کا زخمی چہرہ دیکھا تو سراسیمگی میں اپنے شوہر کو فون کیا جو تھوڑی دیر بعد سکول پہنچا اور سکول انتظامیہ سے معلومات حاصل کر لیں بعد میں اس نے دونوں بچّوں کو ڈانٹا اور آئندہ نہ لڑنے کی تاکید اور نصیحت کر کے واپس اپنے دفتر چلا گیا۔

یہ معمول کا ایک عام سا واقعہ تھا جس کا سامنا روز روز تقریبًا تمام والدین کو کرنا پڑتا ہے اور وہ بوقت ضرورت کبھی غصہ اور کبھی پیار سے ایسے معا ملات کو ختم کرتے رہتے ہیں، لیکن الیان اور حسن کی لڑائی کا معمولی سا واقعہ سوشل میڈیا کی تیز بھاؤ میں آیا تو اسے ایک مخصوص سیاسی زاوئے پر موڑ دیا گیا حتی ’کہ حسن کے چھرے پر لگے معمولی زخم کو الیان کے والد میجر ارباب فرید کا ”حملہ“ قرار دیا گیا، حالانکہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں بلکہ دونوں بچوں نے ایک دوسرے کو زخمی کیا تھا۔

لیکن پہلے یہ بتا دوں کہ میرے اس ”خلاف معمول“ لکھنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ میرے فکری اور نظریاتی تصورات میں دراڑ پڑ گئی بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ تجزئے کے ساتھ حقائق کو سامنے لایا جائے جو صحافتی دیانت کا تقاضا ہے

اور حقائق یہ ہیں کہ الیان کا والد میجر ارباب فرید کچھ عرصہ پہلے سکول انتظامیہ کو باقاعدہ طور پر نہ صرف خط لکھ چکا تھا بلکہ سکول انتظامیہ سے بار بار رابطہ کر کے یہ کمپلینٹ بھی کر چکا تھا کہ حسن نامی ایک بچّہ میرے بیٹھے کو دیکھ کر میرے ادارے کے حوالے سے نہ صرف قابل اعتراض نعرے لگاتا ہے بلکہ روز روز اسے مارتا بھی ہے جس کا میرے بیٹے پر منفی اثر پڑتا ہے۔ یہ بحیثیت والد اس کی ذمہ داری بھی تھی اور استحقاق بھی جسے میجر فرید شریفانہ اور مھذب طریقے سے استعمال کرتا رہا۔

سکول انتظامیہ نے الیان کا سیکشن بھی تبدیل کر کے حسن سے الگ کیا لیکن الیان کی جان پھر بھی نہیں چھوٹی حتٰی کہ یہ چھوٹا سا واقعہ رونما ہوا۔

اور پھر سوشل میڈیا نے بغیر کسی تحقیق کے ایک بے گناہ آدمی کو ایک ظالم اور وحشی کے روپ میں پیش کرنا شروع کیا حالانکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔

میجر ارباب فرید مسلم لیگ ن۔ سے وابستہ مشھور سیاسی اور سماجی کارکن اور پشاور کے تمام صحافیوں کے مشترکہ دوست ارباب خضر حیات کے چچا ذاد بھائی ہیں اور جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ خاندان تشّدد اور سرکشی سے ایک فاصلے پر رہنے والے شریف اور نفیس لوگ ہیں۔

پھر اس کی وجہ کیا ہے کہ ایک ذمہ دار افسر اور خاندانی آدمی بے گناہ ہوتے ہوئے بھی شدید عوامی ردعمل کی زد میں آیا۔

کسی تلخی میں جائے یا سیاسی گند اُچھالے بغیر ایک درد دل کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ اداروں میں موجود لوگ نہ تو دوسرے ملکوں سے آئے فاتحین ہیں نہ کسی سیارے سے اُتری اجنبی مخلوق۔ بلکہ یہ لوگ بھی ہمارے خاندانوں کے افراد اور ہمارے ہی عزیز رشتہ دار ہیں۔ لیکن اس تلخ حقیقت سے آنکھیں بند کرنا ایک نقصان دہ حماقت کے بن کچھ بھی نہیں کہ ہمیشہ سے قائم اس رومانویت کی آبیاری بدلتے ہوئے منظر نا مے کے خدوخال کے مطابق نہیں کی گئی۔ جس کی وجہ سے بعض سیاسی اور سماجی مسائل اور دوسرے واقعات نے بہت گہرائی تک گئیں ان محبتوں اور بندھنوں پر فاصلوں اور ناراضگی کی ایک ہلکی سی تہہ ضرور ڈال دی ہے۔

جس کا فائدہ بہر حال مشترکہ دشمن کے علاوہ کسی اور دھلیز پر ہرگز نہیں ٹپکتا۔

اس لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ معاملات کو بدلتے ہوئے زمانے کے تناظر اور تاریخی پس منظر کے حوالے سے سوچا اور پرکھا جائے بارِدگر عرض ہے کہ ہم سب ایک ہی وطن کے باشندے ہیں اور ایک ہی سماج میں ایک دوسرے سے جڑے افراد ہیں۔

مو جودہ منظر نامے اور برق رفتاری کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات میں ہم کسی نفرت انگیز فضا کو ہرگز افورڈ نہیں کرسکتے کیونکہ ہماری بقاء ایک دوسرے پر اعتماد اور انحصار ہی سے وابستہ ہے۔

اس لئے وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے رویّوں پر نہ صرف نظر ثانی کریں بلکہ کھلے دل کے ساتھ اپنی اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر اسے تعمیری اور مثبت رویوں کی طرف موڑدیں۔

اور یہ من حیث القوم کسی صوبے کسی ادارے کسی جماعت یا کسی علاقے تک محدود نہیں بلکہ اس ملک کے ہر فرد پر لازم ہے کیونکہ نفرت اور تعصب کی زھر باد ہوائیں خدانخواستہ چل پڑیں تو طبقہ و منطقہ اورحسب نسب دیکھے بغیر سب کو لپیٹ میں لینے لگتی ہیں۔ مثال ڈھونڈنا ہی ہو تو تاریخ کے ہر ورق پر مو جود ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).