بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیچارے عوام


ملک کا وزیرخزانہ اگر یہ کہے کہ ہم دیوالیہ ہو جائیں گے تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟ موجودہ حکومت میں یہ آخر چھ سات ماہ تک آئی ایم ایف سے بچنے کا ڈرامہ کیوں کیا جاتا رہا۔ اِس دوران ملک کی معیشت کا جو حشر نشر ہو کر رہ گیا، اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اگر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف کا پروگرام ہی ناگزیر تھا تو پھر اس میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟ بے یقینی میں مبتلا معیشت نے جو ہچکولے کھائے، ڈالر کہاں سے کہاں پہنچا، سٹاک ایکسچینج کا بار بار کباڑہ ہوا، اس کی تلافی کیسے ہو گی، یعنی اب آئی ایم ایف آج کے بعد کی معیشت کے لئے اپنی شرائط دے گا اور ہم قبول کر لیں گے، یعنی ہم نے سو پیاز بھی کھائے اور سو جوتے بھی۔

عمران خان کو کم از کم ایک سال تو دیا جائے، اس میں تبدیلی کی بنیاد نہ رکھی جائے تو پھر مخالفت کا جواز بھی بنتا ہے، مگر اب یہ سب باتیں بیکار ثابت ہو رہی ہیں۔ ملک میں انصاف، صحت اور خوشحالی پھیلانے کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والی حکومت میں ادویات کی قیمتوں میں تقریبا 20 سے 25 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ ابھی تو عنقریب رمضان ہے اور مہنگائی کا دوڑتا ہوا گھوڑا اور کتنی رفتار میں دوڑیگا اس کا انداذہ لگانا مشکل نہیں۔ پچھلی حکومتوں پر شدت سے تنقید کیے جانے کے بجائے اگر اسی شدتکے ساتھ ملک اور عوام کے لیے کام کیا جاتا تو اس وقت عوام اتنی تکلیف میں نہ ہوتی عالمی بینک کے مطابق آئندہ مالی سال پاکستان میں مہنگائی کی رفتار مزید تیز ہو جانے کا خدشہ ہے اور یہ 10 فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے جس سے غربت بڑھ سکتی ہے۔

نئے پاکستان میں عوام کو ریلیف دینے کی دعویدار تحریک انصاف کی حکومت بھی 100 فیصد قرضوں پر انحصار جاری رکھے ہوئے ہے۔ 2019 ء کی پہلی ششماہی میں ستیٹ بینک سے 650 ارب روپے کا قرضہ لیا جا چکا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ سونے کی قیمت ایک ہفتے میں مسلسل اضافہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ ہوا، لوگ چلا رہے ہیں، ان کی حقیقی چیخیں نکل رہی ہیں اور اسد عمر اسی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں، پٹرولیم پر ٹیکس کی شرح 52 فیصد ہے اور اب تو عام آدمی خصوصاً ”فکس انکم گروپ“ اتنا بے حال ہو چکا کہ ذہنی مریض بنتا جا رہا ہے زندگی کے مختلف شعبوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا معیارِ زندگی یک دم گر گیا ہے وہ اپنے بچوں کے سکول کی فیس تک ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، کیونکہ بدلے ہوئے حالات میں وہ یا تو خوراک کی کم از کم ضرورت پوری کر سکتے ہیں یا پھر سکولوں کی فیس دے سکتے ہیں۔

زندگی کے مختلف شعبوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا معیارِ زندگی یک دم گر گیا ہے وہ اپنے بچوں کے سکول کی فیس تک ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، کیونکہ بدلے ہوئے حالات میں وہ یا تو خوراک کی کم از کم ضرورت پوری کر سکتے ہیں یا پھر سکولوں کی فیس دے سکتے ہیں اور اگر حالات نہ سدھرے تو نہ جانے کیا ہو۔ ہماری معیشت روز بروز تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری 1.63 ارب ڈالر سے کم ہو کر 1.31 ارب ڈالر پر آگئی ہے۔ 2018 میں برآمدات میں 10.9 فیصد اضافہ جبکہ 2019 کی پہلی ششماہی میں صرف 1.9 فیصد اضافہ ہوا۔

دوسری جانب حالیہ دور میں ڈالر اڑان بھر رہا ہے اور اب تک 143 روپے پچاس پیسے کا ہوا، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پرواز 160 سے 180 تک جا کر رُک سکے گی۔ آخر پاکستان میں ڈالر کیوں بیش قیمت ہوا جا رہا ہے؟ روپیہ کیوں اپنی قدر کھوتا جا رہا ہے؟ یہ ہیں وہ سوال جو آج کل ہر ذہن میں ابھر رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ڈالر مہنگا نہیں ہو رہا بلکہ روپیہ ناتواں ہو رہا ہے۔ ماہرین معاشیات کی رائے میں اس کی وجہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی غلط معاشی پالیسیاں اور نگران حکومت کا ان کو ٹھیک نہ کرنا ہے۔

10 روز کے اندر سرمایہ کاروں کے 6 کھرب روپے ڈوب گئے۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے، خصوصاً اس وقت جب ایک طرف آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکیج کے لئے بات چیت حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور اس کے سوا حکومت کو کوئی چارا بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ پوری حکومت بس ایک ہی راگ مالا الاپ رہی ہے کہ گزشتہ حکومت ملک کو کنگال کر کے چلی گئی۔ خزانہ خالی، خزانہ بھرنے کے لیے بھینسیں بیچ لیں۔ گاڑیاں بیچ لیں۔

معیشت کو سہارا دینے کے لئے ”مرغیاں اور کٹے پالنے کا مشورہ قوم کو دے دیا، ملکوں ملکوں کشکول لے کر پھر رہے ہیں۔ پرانے پاکستان میں ملک کی اتنی دولت کرپشن کے ذریعے ن لیگ کی حکومت نے نہیں لوٹی ہوگی جتنی پی ٹی آئی کی حکومت میں ملک کی دولت کا نقصان ہوا۔ سٹاک مارکیٹ کریش کرگئی اربوں کے سرمایے ڈوب گئے ڈالر کو پر لگنے سے ملک پر قرضوں میں مذید اضافہ ہوگیا۔ نہ کوئی کرپشن ہوئی نہ چوری ہوئی، میرا سوال یہ نہیں اس سب کا ذمہ دار کون ہے یا کِسے الزام دینا ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ یہ کیسی تبدیلی ہے کہ ہماری مجموعی حالت بگڑی ہی ہے بنی نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کی طرف سے بہتری کی امید دی جاتی رہی ہے اور ہر دفعہ فرما دیتے ہیں کہ میرے پاکستانیوں آپ نے گھبرانا نہیں ہے جبکہ غریب کے لیے یہ روز بھوکا مرنے کا مقام ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).