بس ہوسٹس کو کیا کرنا چاہیے؟


بس ہوسٹس مہوش کے بس گارڈ کے ہاتھوں قتل نے کئی سوالات چھوڑے تھے۔ غالباً گارڈ کا موقف یہ ہوگا کہ اس کا من پسند کھلونا اگر اسے نہیں مل سکتا تو اسے توڑنے کا حق رکھتا ہے۔ مہوش اپنے خاندان کی واحد کفیل تھی۔ اب ایک اور واقعہ لاہور سے اسلام آباد چلنے والی بس سروس کی بس ہوسٹس کو ہراساں کرنے کا سامنے آیا ہے۔ ایک شخص نے خود کو خفیہ ادارے کا اہلکار ظاہر کرتے ہوئے نہ صرف بس ہوسٹس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں بلکہ شدید طور پر ہراساں بھی کیا۔ بس ہوسٹس بے بسی سے روتی رہی اور دیگر مسافر اس کی ویڈیو بناتے رہے لیکن اس کے حق میں ایک لفظ تک نہ کہا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ بس ہوسٹس کی جاب کرنے والی لڑکیوں کو کیا کرنا چاہیے کہ وہ ایسی صورتِ حال سے محفوظ رہ سکیں۔ اول تو لڑکیوں کو یہ جاب کرنی ہی نہیں چاہیے کیونکہ اس طرح ان بہت سارے مرد کنڈیکٹروں کی حق تلفی ہوتی ہے جو گریس لگے کپڑوں کے ساتھ بسوں میں ہوا کرتے تھے۔ قوم کو صاف ستھرے یونیفارم میں کسی لڑکی کو ہوسٹس کی جاب کرتے دیکھنا اچھا نہیں لگتا اس لئے ایسے واقعات جنم لیتے ہیں۔

بس ہوسٹس کی جاب کرنے والی لڑکیوں میں سے اکثر نہایت غریب گھرانوں سے ہوتی ہیں۔ بھوک اور ننگ انہیں جاب تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ بس ہوسٹس کی جاب کے لئے کسی خاص ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جاب ملتے ہی آمدنی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن ایسے واقعات ہونے کی وجہ سے کسی ضرورت مند لڑکی کو چاہیے کہ بس ہوسٹس نہ بنے۔ نرسنگ میں ٹرائی کر لے۔ پہلے برسوں نرسنگ کی ٹریننگ لے پھر جاب ڈھونڈے۔ مسئلہ تو یہاں بھی ہے۔ کئی مریض جو دل کی بیماری میں مبتلا ہو کر ہسپتال آتے ہیں وہ نرس سے دل لگی کر بیٹھتے ہیں اور بعض اوقات مریضوں کے تیماردار نرسوں پر مرنے لگتے ہیں۔ ہراسانی کا شکار نرسیں بھی ہوتی ہیں۔

خیر دفاتر یا بنک میں کام کرنا بہتر ہو گا۔ اب اس میں ایک اور مصیبت ہے۔ کبھی بنک میں کام کرنے والے ساتھی بدتمیزی کر بیٹھتے ہیں تو کبھی آفس کے باس نئی آنے والی لڑکی پر ڈورے ڈالتے ہیں۔ باس کا اختیار بھی تو لامحدود ہوتا ہے۔ اتنا زیادہ کام دے دیا جو آفس ٹائم میں ختم نہ ہوسکے پھر بہانے بہانے سے اس کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرنا اگر لڑکی انکار کرے تو وارننگ لیٹر یا پھر نوکری سے چھٹی۔ گویا یہ بھی ٹھیک نہیں۔

ہاں ٹیچنگ بہتر ہے۔ ٹیچر بننے کے لئے ضرورت سے زیادہ پیشن درکار ہے۔ ہر شخص ٹیچر نہیں بن سکتا۔ ایک غریب لڑکی اعلیٰ تعلیم کا خرچ برداشت نہیں کر سکتی تو ٹیچر کیسے بنے۔ چلیں کسی طرح بن جاتی ہے تو ہراساں کرنے والے یہاں بھی نہیں چھوڑتے۔ ادارے میں اگر بچ جائے گی تو آتے جاتے راستے میں ہراسانی کا شکار ہو جائے گی۔

میڈیا، ٹی وی اور فلموں سے وابستہ لڑکیوں کو تو ویسے ہی آسان شکار سمجھا جاتا ہے۔ رکشہ اور ٹیکسی چلانے لگیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے انہیں ان کی گاڑی میں ہی اغوا کر لیا جائے یعنی یہ کام بھی محفوظ نہیں۔

بات شروع تو بس ہوسٹس کی جاب سے ہوئی تھی لیکن دور تک نکل آئی۔ اب نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بس ہوسٹس کی جاب چھوڑ کر گھر میں رہنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ وہ اور اس کے گھر کے کچھ لوگ فاقوں سے مر جائیں گے لیکن اس فانی دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے ایک دن یہ دنیا چھوڑ کے جانا ہی پڑتا ہے پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی جلدی چلا جائے۔ ویسے بھی اس دنیا میں رکھا کیا ہے۔

فرض کریں آپ گھر سے باہر جاتے ہیں اور کوئی کتا آپ پر بھونکتا ہے تو جواب میں آپ تو اس پر نہیں بھونک سکتے ناں۔ اسی طرح کوئی کتا آپ کو کاٹ لے تو آپ اسے نہیں کاٹ سکتے۔ کتے کو مارنے کی بجائے بہتر یہی ہوتا ہے کہ آدمی گھر واپس آ جائے۔

ہاں ایک اور حل ہے اور ہمارے خیال میں یہ نہایت موثر حل ہے۔ بس ہوسٹس کی جاب کرنے والی لڑکی کو چاہیے کہ اپنے دل میں ایک گہری قبر بنا کر اس میں اپنے تمام احساسات اور جذبات دفن کردے۔ ہوس ناک نگاہوں اور تضحیک آمیز رویوں کو برداشت کرنے کے لئے عزتِ نفس اور پندار کو بس کے ٹائروں تلے روند دے اور پھر اس کچلی ہوئی لاش کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دے۔ آخری ذرے تک کو راکھ بنا کر ہوا میں اڑا دے۔

پھر جب کوئی اپنے آپ کو خفیہ ادارے کا اہلکار ظاہر کر کے اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرے گا تو اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں گریں گے اور تماشائی اس کے اشکوں سے حظ کشید کرنے سے قاصر رہیں گے۔ ظاہر ہے سماج کو بدلنا تو ممکن نہیں ہے لیکن خود کو تو بدلا جا سکتا ہے۔ سو بس ہوسٹس کو کیا کرنا چاہیے یہ تو ہم نے بتا دیا ہے آگے آپ کی مرضی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).