کیسے نا کہہ دوں کہ تھک گیا ہوں میں،


امی کا چیک اپ کروانا ہے بلڈ پریشر تو ٹھیک ہے مگر کچھ دنوں سے طبیعت زیادہ خراب رہ رہی ہے، ابو کی شوگر کی دوائی بھی ختم ہو گئی ہے اور بلڈ پریشر بھی تو بھڑنے لگ گیا ہے، چھوٹے بھائی کے میٹرک میں بہت اچھے نمبر آئے ہیں مگر کالج میں داخلہ کے لیے فیس بھی تو دینی ہے خیر ابھی ایک، دو ماہ پڑے ہیں۔

ابو کی سائیکل کی مرمت کروانی ہے کون سا زیادہ پیسے چاہیے ہزار، پندرہ سو سے سائیکل ٹھیک ہو جائے گی، موٹر بائیک تو اچھا ہوا خراب ہو گئی پیٹرول بھی تو مہنگا ہو گیا ہے سو روپے لیٹر تک چلا گیا ہے، ویسے بھی ابو نے کون سا زیادہ دور جانا ہوتا کام پہ، گھر سے صرف آٹھ، نو کلومیٹر کا فاصلہ ہی تو ہے، خیر ابو کے پاس سائیکل ہے نا۔

بڑی بہن شازیہ کو دیکھنے بھی آ رہے ہیں، یہ پچھلے بیس دنوں سے تیسرے رشتے والے آ رہے ہیں، پانچ، چھے سو کی چائے مٹھائی پی جاتے ہیں اور ہفتوں بَعْد بھی کوئی جواب نہیں ملتا، بہن بھی کافی چڑچڑی سی ہو گئی ہے آخر کب تک ایسے ہی تیار ہو کر چائے پیش کرتی رہے اور وہ ہر بار نا پسند کر جائیں۔

آپی نادیہ کی تو تین سال پہلے منگنی ہوئی تھی، لیکن امی اور شازیہ کو باتیں کرتے سنا تھا کہ وہ لوگ جہیز میں ایئر کنڈیشنر اور دلہا بھائی کے لیے ایک عدد بائیک بھی مانگ رہے ہیں، امی کو ابو سے یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کے دفع کریں دو سال تو ہو گئے دوبئی سے ایک باربھی فون نہیں آیا اور منگنی کے بَعْد بس صرف ایک بار فون آیا تھا وہ بھی چھوٹی عید پہ، ابو نے امی کو تسلی دیتے ہوئے کہا میری بات ہوتی رہتی ہے وہ بہت مصروف ہے آج کل اِسی لیے فون نہیں کر پاتا ہوگا، امی خاموش ہو گئی مگر ابو کی آنکھوں سے سچ پڑھ لیا تھا۔

پچھلی کوئی تین، چار عیدیں گزر گئی امی ہر بار عید پر آپی نادیہ کی شادی کی تیاری مکمل کر کے بیٹھ جاتیں مگر ہر بار نوید بھائی دوبئی میں ہی ہوتے، لیکن اِس بار تو پکا تھا کے عید خالی نہیں جائے گی، امی کی اِس بارکمیٹی بھی نکلنے والی تھی اور واشنگ مشین اور استری انہی پیسوں سے لینی تھی باقی جہیز بھی کافی بن گیا تھا مگر جب امی آنٹی کے گھر پہنچیں تو آنٹی رضیہ نے بتایا کے نوید بھائی تو دوبئی میں شادی کر چکے ہیں ان کا تو ایک بچہ بھی ہے اسی لیے تو پاکستان نہیں آیا وہ تین سال سے، بس یہ سننا تھا کے امی پتہ نہیں کیسے بوجھل قدموں سے گھر تک پہنچی ہو گی، امی پہ تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا ہو، آپی نادیہ تو کچھ بول ہی نہیں رہی تھیں، اور آپی شازیہ کو تو آج دیکھنے بھی آ رہے تھے، چھوٹے بھائی کی ایڈمیشن فیس جمع کرانے کا بھی آج آخری دن تھا، اور باہر ابو جہیز کے لیے موٹر بائیک اور ایرکنڈیشنر لیے آ رہے تھے۔

اور میں بھی کئی سالوں سے حالات کی بہتری کی امید لگائے آج تھک سا گیا تھا، تو پھر کیسے نا کہہ دوں کہ تھک گیا ہوں میں،

ٙاک مدت ہوئی ہنسا تھامیں
زمانے گزرگئے رویا نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).