نئے پاکستان میں اظہار کے نئے انداز


محاورے، کہاوتیں، ضرب الامثال اور نعرے چند لفظوں میں پوری کہانی بیان کر دیتے ہیں۔ سوچا جب پاکستان نیا بنا ہے تو اظہار کے انداز بھی نئے ہونے چاہئیں۔ اسی طرح نامور شعرا کے چند مصرعے جو زبان زد عام ہو کر معانی کے سمندر کی سی حیثیت اختیار کر گئے وہ بھی مطلوبہ تبدیلی کے فلٹر سے گزرنے چاہئیں۔ اس مضمون میں شامل فہرست مکمل نہیں، اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا جوں جوں کم ظرف عوام کے صبر کا پیمانہ تبدیلی کے ثمرات سے بھرتا چلا جائے گا۔

پہلے سے موجود محاوروں کی طرح نئے بھی معاشرے سے بن کر آئیں گے۔ ہڈ بیتی اور جگ بیتی کا حال بتاتے ہوں گے، کوئی باقاعدہ بیٹھ کر قلم بند نہیں کرے گا۔ اور کچھ پہلے سے رائج اظہار تبدیل ہوئے بغیر بدلتے موسم میں کسی اور کیفیت کی ترجمانی شروع کر دیں گے یعنی ان کے معانی اور استعمال بدل جائیں گے۔ فی الحال درج ذیل مختصر سی فہرست پر اکتفا کریں۔ ہر اظہار کے سامنے بریکٹ میں اس کی ترکیب استعمال یعنی ایسے مقامات کا ذکر ہے جہاں انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ ”منظور شدہ“ دفاعی تجزیہ کاروں کی فہرست نہیں لہذا ان کے ”غیر مطلوبہ“ استعمال پر بھی کسی طرح کی قدغن نہیں ہے۔

1۔ ہر شاخ پہ اسد بیٹھا ہے، انجام پاکستاں (نیا) کیا ہو گا۔ (جب مسئلے کی جڑ تلاش کرنے کی بجائے جزوی اور آرائشی تبدیلیوں کے ذریعے سب اچھا ہو جانے کا تاثر دیا جائے )

2۔ ہم ڈیم بنانے نکلے ہیں، آؤ ہمارے ساتھ چلو۔ (جب اچانک کسی باسی کڑھی میں وقتی ابال آئے یا عوامی توجہ کا سٹیئرنگ اصل مسائل کی سمت سے موڑ کر کسی دوسری جانب کرنے کی کوشش کی جائے )

3۔ نوٹ کو عزت دو۔ (جب سیاسی جماعتوں میں حامد خانوں، سعد رفیقوں، صدیق الفاروقوں، اسرار شاہوں، دانیال بلوروں کی جگہ ترینوں، حمزوں، ٹپیوں، ہوتیوں اور ولیوں کی سنی اور مانی جائے )

4۔ اے مرد مجاہد بھاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا۔ (اس کے استعمال کے مواقع میں قدرے کمی تو آئی ہے، دعا کرنی چاہیے کہ اس کے استعمال کی نوبت نہ ہی آئے۔ تاہم اس کا استعمال کوئٹہ کی ہزار گنجی فروٹ مارکیٹ جیسے واقعات کی صورت میں کیا جا سکتا ہے اگر مہلت مل جائے تو)

5۔ نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں، چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔ (فیض صاحب کے اس لازوال شعر میں تبدیلی کی ضرورت نہیں تاہم اس کا استعمال حسب ضرورت سوئی گیس پائپ والے بی آر ٹی انڈر پاسوں میں داخل ہوتے اور پولنگ سٹیشنوں پر گنتی سے پہلے کمرے سے باہر نکلتے وقت کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر اخبار میں کسی وزیر کا چھترول والا بیان پڑھیں تب بھی یہ مصرعہ زیر لب پڑھا جا سکتا ہے )

6۔ ایسے دستور کو، صبح بے نور کو۔ میں نہیں مانتا وغیرہ وغیرہ۔ (شنید ہے کہ حکومتی حلقوں میں لاعلاج انقلابی شاعر حبیب جالب کی نظم کے یہ اشعار آج کل بہت سنے جاتے ہیں جب جب اٹھارہویں ترمیم کا کنکر اقتدار کے مزیدار لقمے میں منہ کے ذائقے کی پین دی سری کرتا ہے )

7۔ سیاست نہیں، ریاست بچاؤ۔ (ریاست بچائی جا چکی ہے، آج کل سیاست بچائی جا رہی ہے لہذا یہ نعرہ فی الحال زیر استعمال نہیں اور ”مال خانے“ میں محفوظ کر دیا گیا ہے تاکہ بوقت ضرورت جھاڑ پونچھ کر دوبارہ استعمال کیا جا سکے )

اور آٹھویں نمبر پر چکوال کے پنجابی لہجے کا یہ مشہور اظہار شامل ہے، جسے ملکو نے ایک مقبول گیت کی شکل میں بھی ڈھال دیا ہے۔ اس میں کسی تبدیلی کی گنجائش ہے اور نہ ہی یہاں کے حالات دیکھتے ہوئے شاید کافی عرصہ کسی تبدیلی کی ضرورت پڑے گی۔

8۔ رل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے (جب تبدیلی نے آپ کی چیخیں نکال دی ہوں لیکن پھر بھی آپ بھی آپ اس خاطر داری سے زیادہ ڈھیٹ ثابت ہوئے ہوں تو یہ محاورہ بلکہ گانا مزے لے لے کر گنگنایا جا سکتا ہے۔ زیادہ مزے لینے ہوں تو ملکو نے ایک گوری کے ساتھ بھی گانا گایا ہے جو آر یعنی رے (ر) درست طریقے سے ادا نہیں کر سکتی اور اس طرح رلنے کو مزید رول کر اور زیادہ مزہ دیتی ہے۔ یہ ویڈیو یو ٹیوب وغیرہ پر دیکھی جا سکتی ہے ورنہ وسی بابے نے بھی خلق خدا کے فائدے کے لئے اپنی وال پر آویزاں کر رکھی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).