عورت مارچ سے مقدس رشتوں کی پامالی تک


اسلام عورت کو مکمل حقوق دیتا ہے۔ یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کیا۔ یہ کہہ دینے سے عورت کو حقوق مل جاتے ہیں۔ عورت محفوظ ہوجاتی ہے۔ آٹھ مارچ کو ہونیوالے عورت مارچ کے بعد اسلام عورت کومکمل حقوق دیتا ہے کا بہت شور سنا۔ عورت مارچ کے بعد ہی کچھ ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ عورت کی اس سے زیادہ تذلیل شاید ہی کوئی اور ہو کہ عورت بہن، بیٹی اور بیوی کی شکل میں عزت کے رکھوالوں کے ہاتھوں تار تار ہوئی ہے۔ اسلام آباد کے علاقے گولڑہ میں سگے بھائی بہن کو ریپ کرتے رہے۔

لاہور، سیالکوٹ اور شیخوپورہ میں بھی سگے بھائی کی جانب سے بہن کو ریپ کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہوئے۔ مختلف واقعات میں باپ بیٹی سے منہ کالا کرتے رہے۔ سگے ماموں نے بھانجی سے جنسی تعلقات استوار کیے رکھے۔ چچا نے بھتیجی کو رکھیل بنائے رکھا۔ آٹھ مارچ سے لے کر آج سولہ اپریل تک ملک کے مختلف حصوں میں مقدس رشتوں کی پامالی کے اس قسم کے دس واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ کتنے واقعات ہوں گے جو کبھی رپورٹ نہیں ہوئے اور نہ ہی ہوں گے۔

ان واقعات کی مذمت یا ان کو شرمناک قرار دے کر پس وپست نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔ مقدس رشتوں کی پامالی اور بے حرمتی کا ارتکاب سماج میں پائی جانے والی گھٹن ہے یا مذیبی بیانیہ کا جبر ہے۔ ریاست، حکومت، سیاسی جماعتوں، اہل فکرودانش کو اس مسئلہ پر بات کرنے کی ضرورت ہے کہ آخرعزت کا محافظ ہی عزت پر حملہ آور کیوں ہوجاتا ہے۔ کیا وجوہات ہیں۔ اس کا تدارک کیسے ممکن ہے۔ سماج میں میں دم توڑتی انسانی اخلاقیات کو کس طرح بچایا جا سکتا ہے۔

عورت مارچ میں میرا جسم میری مرضی کے نعرے کامطلب یہی تھا کہ عورت ماں، بیوی، بہن، بہو۔ بیٹی، بھانجی، بھتیجی کے روپ میں کوئی پرزہ نہیں ہے کہ مرد جب چاہے۔ جدھر چاہے فٹ کرلے۔ کبھی قرآن سے شادی کردو۔ کاروکاری میں کاری کردو۔ بدلے میں دے دو۔ جوئے میں ہار آؤ۔ تیرہ سال کی بچی کو بوڑھے سے بیاہ دو۔ رشتے کاتقدس پامال کرتے ہوئے نوچ ڈالو۔ عورت مرد سے اپنے جسم کی آزاد ی مانگے تو بدچلن اور بدکار ہے۔ عورت اپنے ہی گھر میں غیرمحفوظ ہے تومرد کی مردانگی ہے۔

کیا یہ مرد کا حق ہے۔ یہ حق مرد کو کون سا سماج۔ کون سا مذہب دیتا ہے۔ یہ کون سی اخلاقیات ہے۔ جو عورت کے جسم پر ایسا اختیار دیتی ہے کہ مرد کو بہو، بیٹی، بہن کا جسم بھی محض اک جنسی پرزہ ہی نظر آتا ہے۔ عورت کے نعرے میرا جسم میری میرضی کی مخالفت اور روگردانی مرد کی جانب سے درندگی اور وحشت کا اظہار ہے۔ جس کا ذکرمندرجہ بالا سطور میں کیا ہے کہ کس طرح مقدس رشتوں نے عورت کے تقدس کو پامال کرکے وحشت اور درندگی کا ثبوت دیا ہے۔

جس پر انسانیت سوائے شرمندگی کے اور کچھ نہیں کر سکتی ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ مذہبی مدارس سمیت دیگر سرکاری اور نجی درس گاہوں میں تعلیمی ڈگری کے ساتھ اخلاقی اور انسانی رویوں پر مبنی تعلیم و تربیت کا فقدان ہے۔ دوسری جانب ریاست اور حکومت کا بیانیہ بھی مبہم ہے۔ جس کے باعث سماجی سطح پر عوامی رویے خود رو ہیں۔ ریاست اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی ہے۔ ریاست کے بیانیہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کا بیانیہ اپنی بقا پراستوار ہے۔

اسی طرح حکومت اور سیاسی جماعتیں محض اقتدار کی سیاست میں مگن ہیں۔ سماج کی ٹوٹ پھوٹ اور تباہی و بربادی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ریاست کو جنسی امور کومتوازن رکھنے کے لئے اقدام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم جنس پسندی پر بھی اپنا رویہ تبدیل اور کنڈوم کی طرح ہرقسم کے سیکس ٹوائے کی دستیابی آسان اور سہل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سماجی اور مذہبی جبر و گھٹن مقدس رشتوں کی پامالی کا باعث نہ بنے۔ اب یہ فریضہ اہل قلم، اہل فکرودانش اور مذاہب کے مبلغین کاہے کہ وہ درست خیالی کو اپناتے ہوئے مذہبی، سماجی اور سیاسی اخلاقیات کے ساتھ انسانی اخلاقیات کا بھی درس دیں۔ انسانی رشتوں کے تقدس پر بھی عام عوام کی رہنمائی کریں تاکہ مذہبی و سماجی جبر کی بجائے انسانی اخلاقیات پر مبنی استحصال سے پاک پرامن معاشرے کا قیام ممکن ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).