امن ضروری ہے!


موجودہ دنیائے عیسائیت میں پوپ فرانسس کا ایک اہم مقام ہے۔ امریکی ریاست ارجنٹا ئن کے دارالحکومت بوئنس ائیر میں 1936 میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا بیشتر حصہ عیسائی مذہب کے اہم فرائضِ منصبی پر گزارا۔ ارجنٹائن کے صوبائی چرچ کے بطور نگران ذمہ داری بھی سنبھالی رکھی۔ اب ایک یورپی ملک ویٹی کِن سٹی ( جو کہ فقط 1000 آبادی پر مشتمل ہے ) کے مقتدر اعلی اور دنیا میں کیتھولک عیسائیت کے معتبر پادری ہیں۔ عیسائیت کو آپس میں جوڑے رکھنے اور امن و تعاون کے ساتھ رہنے کے متعلق احکامات جاری کرتے رہتے۔ان کے مذہبی اعتبار سے جاری کردہ بیان کو مسیحی برادری کی اکثریت حرفِ آخر سمجھتی ہے۔

اک نظر جنوبی سوڈان کی عیسائی کمیونٹی کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ سوڈان جو کہ برطانوی سامراج کے زیرِ قبضہ تھا اور 1953 میں سوڈانی نیشنلزم بیدار ہونے کی وجہ سے 1 جنوری 1956 میں سوڈان کو آزادی ملی۔ سوڈان مسلم اکثریتی ملک تھا اور سب سے بڑی اقلیت عیسائی تھے جو سوڈان کے جنوبی حصے میں پائے جاتے تھے۔ مذہبی اور معاشی بنیاد پر شمالی اور جنوبی سوڈان کے درمیان پہلی خانہ جنگی 1955 میں شروع ہوئی اور 1972 میں تقریباً پانچ لاکھ افراد کے قتل پر اختتام پذیر ہوئی۔

پھر 1983 میں حکومت کی جانب سے کچھ اسلامی قوانین کی اہم پیشرفت کی گئی جو کہ عیسائی اقلیت کو نا گوار گزری اور اسی مسئلے نے ایک بار پھر سوڈان کو سول وار کی آگ میں جھونک دیا۔ حکومتی گروپ ”قومی اسلامی اتحاد“ اور دوسری طرف جنوبی باغیوں کے گروپ کے درمیان شروع ہونے والی لڑائی کئی جانیں نگل کر 2005 میں ختم ہوئی۔

اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر 9 جنوری 2011 کو سوڈانی ریفرنڈم میں جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے حق میں 98 فیصد ووٹ ملے اور جولائی 1911 میں جنوبی سوڈان ایک عیسائی اکثریتی ملک کی شکل میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔

جنوبی سوڈان چونکہ لاغر، مفلوج اور بحرانی مسائل سے دو چار حالت میں آزاد ہوا تھا تو اب بھی اس کے معاشی، سیاسی اور سماجی حالات قابل تشویش ہیں۔ 2013 میں جنوبی سوڈان کے صدر سلوا مایر ڈِٹ اور حزب مخالف کے درمیان نہایت سنگین سیاسی تضاد شروع ہوا اور خانہ جنگی میں بدل گیا جس کی زد میں آکر تقریباً چار لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اترنا پڑا۔ یہ ساری کی ساری قتل و غارت اور دہشتگردی عیسائی کمیونٹی کی آپس میں ہی تھی۔

عیسائی برادری اور طاقتور قوتوں کی مداخلت سے گزشتہ کچھ روز قبل حکومت کی جانب سے صدر سلوا اور قائد حزب اختلاف رائیک مشر کے درمیان امن معاہدہ طے پایا۔

اپنی مذہبی دہشتگردی اور قتل و غارت کو روکنے کے سبب پوپ فرانسس نے دونوں گروپوں کے رہنماؤں کو ملاقات کی دعوت پر ویٹی کن سٹی بلایا اور پوپ فرانسس جیسی عیسائی معتبر شخصیت نے گھٹنوں کے بل جھک کے دونوں کے قدموں کو بوسہ دے کر عیسائیت کو پیغام دے دیا کہ جس حد تک ممکن ہو آپس میں امن اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

عیسائی برادری کو مزید ان حالات سے بچانے کے لئے جو معاہدہ کیا گیا اس کو داد دینے کے لئے 82 سالہ پوپ کو ان کے آگے جھکنا پڑا اور کچھ ان الفاظ سے مخاطب ہوا

”میں تمہں کہتا ہوں کہ اس کی جستجو کرو جو تمہں متحد کر دے۔ ان حقائق سے آغاز کرو جو تم اور تمہارے لوگوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ اور اس سب کو ختم کرو جو تمہں تقسیم کرے۔ لوگ ماضی کے تنازعات سے بیزار اور تنگ آ گئے ہیں اور یاد رکھو کہ جنگ کے ساتھ تم سب کچھ کھو دو گے“

اس کے برعکس اگر امت مسلمہ کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا تو شیرازہ ہی بکھرا ہوا ہے۔ اک فرقہ واریت کی جنگ ہر مسلم ریاست نے ایک دوسرے کے خلاف چھیڑی ہوئی ہے۔ شاید ہماری باگ ڈور ہی اب ان کے ہاتھ ہے جن کی اپنی برادری کا امن و سکون تب ہی ممکن ہوسکتا جب ان کے مخالف گروہ کا اتحاد اور امن و سکون خطرے میں ہو گا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے مسلم امہ پر فیفتھ جنریشن وار مسلط کی گئی۔ انہی میں سے ایسے لوگ پیدا کیے گئے جو نظریاتی طور پر انہیں ایسے گھات لگائیں کہ ریاستیں اجڑ کے رہ جائیں۔

ایسے نظریاتی تضاد کی روشنی میں اب یہ امید کرنا ناممکن نظر آرہا ہے کہ کوئی ایسی شخصیت ہو جسے مجموئی طور پر امتِ مسلمہ میں ویسی ہی اہمیت حاصل ہو جیسی کے عیسائیت کے لئے پوپ فرانسس کہ۔ ایسی آزادانہ ”مؤثر“ مسلم تنظیم کا قیام عمل میں آئے جس کا مقصد تمام مسلم ریاستی مفاد کے ساتھ ساتھ بھائی چارہ اور اتحاد بین الامت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).