دفتری شیشہ۔ (صاحب جی، ایہندا کی مطلب اے؟)


چاچا شیرا پچھلے دس سال سے پولیس لائن کے ریسٹ ہاوس میں ملازم تھا۔ پانچ جماعت پڑھا چاچا شیرا ایک سادہ اور نیک آدمی تھا۔ بس اس کا کام تھا ریسٹ ہاؤس کی دیکھ بھال صفائی ستھرائی اور پولیس ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرنے والے افیسرز کی خدمت اور چائے کھانے کا بندوبست کرنا۔ عرصہ دس سال سے وہ یہ کام انتہائی محنت لگن اورخلوص نیت سے کرتا آرہا تھا اکثر مختلف اضلاع کے ڈی ایس پی رینک سے لے کر اوپر تک کے سینیئر افسر ریسٹ ہاؤس میں آکے ٹھہرتے اور چاچا شیرا ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتا۔

اکثر و بیشتر ایسا بھی ہوتا کہ پنجاب پولیس کے ہر دلعزیز سابقہ آئی، جی، گلگت بلتستان محترم جناب سرمد سعید صاحب جیسے شفیق ماتحت پرور اور اچھے افسر جن کے بارے ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں وہ آفس سے گھر آئے اور گھر میں موجود اپنے سٹاف جس میں ڈرائیور، مالی، لانگری، شامل تھے۔ سب کو کہا کہ شام روزہ افطاری تک سب لوگ اپنی رہائش میں جا کے آرام کریں۔ سرمد سعید صاحب نے اپنے گھر کے سٹاف کو انتہائی معقول اور بہترین رہائش فراہم کر رکھی تھی۔

لہذا سب لوگ اپنی رہائش والے کمرے میں لگے ائیر کولر کے سامنے جاکے سو گئے۔ گرمیوں کے دن تھے اور صاحب موصوف کو اچانک کسی کام سے فوراً یونیفارم تبدیل کر کے باہر جانا پڑا صاحب نے گرمی تپش اور روزے کی پرواہ کیے بغیر خود گاڑی نکالی اور اپنے سٹاف کے آرام کا خیال کرتے ہوئے جو بھی ان کا کوئی کام تھا مکمل کر کے گھر واپس آگئے اس ریسٹ ہاؤس میں بھی اکثر سرمد سعید صاحب جیسے شفیق افسر آ تے پولیس ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرتے اور جاتے ہوئے چاچے شیرے کے کام اور اس کے تعاون سے خوش ہو کراچھا خاصا انعام بھی دے جاتے۔

اور کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ذراسی کسی چھوٹی موٹی غلطی کی پاداش میں چاچے شیرے کواپنی عمر سے چھوٹے انسانوں سے کھری کھری اور ٹھیک ٹھاک سننی بھی پڑ جاتیں لیکن چاچا شیرا کبھی بھی حرف ِشکایت زباں پہ نہ آنے دیتا اور ان جھڑکیوں کو اپنی قسمت اور افسر کا حق سمجھ کے برداشت کرتا۔ دوران صفائی ستھرائی ہمیشہ جب چاچا شیرا گیلری میں لگے شیشے پہ صفائی کی غرض سے کپڑا مار رہا ہوتا توایک جملہ پڑھ کے حیرت میں گم ہو جاتا۔

اور سوچتا کہ کیا یہ سارے پولیس والے افسر قابلِ عزت نہیں ہوتے۔ حالانکہ وردی تو سارے ایک جیسی پہنتے ہیں بس رینک کا فرق ضرور ہوتا ہے ایک عرصہ دراز سے چاچا شیرا آیئنے پہ لکھی عبارت ”کیا میں قابل عزت ہوں“ پڑھتا آرہا تھا لیکن اس سارے عرصے میں ایک بار بھی چاچا شیراکسی افسر سے اس عبارت کا مطلب پوچھنے کی ہمت نہ کر پایاتھا۔ چاچا شیرا یا تو افسران کی ظاہری ٹھاٹ باٹ سے ڈر جایا کرتا تھا یا چاچے شیرے سے الفاظ کا چناؤ نہیں ہو رہا تھا کہ کس طرح ادب کے ساتھ اپنی حدود میں رہ کہ کسی افسر سے اس عبارت کا مطلب پوچھے۔

وہ سوچتاتھاکہیں ایسا نہ ہو کہ میں کسی ایسے افسر سے پوچھ بیٹھوں جو سچ مچ قابل عزت نہ ہو اور وہ جاتے جاتے میرا روزگار ہی بند کر جائے یا  ریسٹ ہاؤس سے مجھے ہٹانے کی سفارش ہی کرجائے اب اس بوڑھاپے میں مجھ سے پولیس لائن کی نالیوں اور کیاریوں میں رنبی نہیں چلائی جائے گی۔ وقت گزرتا گیا اور ایک دن ایک فرشتہ صفت افسر جنھوں نے اپنی تمام تر ذاتی ترجیحات کو محض اپنے زیرِسایہ ادارہ کی فلاح بہبود اور پولیس کی روایتی سوچ کو یکسر تبدیل کرنے کے لیے ترک کر دیا جن کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے پولیس ٹریننگ کالج چوہنگ کو ٹرنینگ اور نظم وضبط کے حوالے سے پولیس کی ٹریننگ کے تمام اداروں میں نمایاں مقام حاصل ہوا جو ٹرینی کو اپنا بیٹا یا بیٹی کہہ کے بلائیں جو پولیس کے محکمے کو مثالی اور کرپشن سے پاک محکمہ بنانے کی کوششوں میں لگے ہوں جو انسان کو اس کے رینک سے نہیں بلکہ اس کی اخلاقیات کی وجہ سے اہمیت دیتے ہوں جو ٹریننگ کے لیے آنے والے ٹرینیز سے ایک وعدہ کرتے ہیں اور پھر وہ وعدہ نبھاتے بھی ہیں نئے لوگوں سے وہ وعدہ کرتے ہیں کہ بیٹا یہاں آپ کو اچھی رہائش اچھا کھانا اور ایک بہترین ٹریننگ دی جائے گی آپ کو کوئی مسئلہ ہو تو آپ بلا جھجک میرے آفس آئیں اور آپ کی ہر جائز بات سنی اور تسلیم کی جائے گی اور جب وہ ٹرینی اپنی ٹریننگ مکمل کر کے جانے لگتے ہیں تو پھر ایک وعدہ ان سے بھی لیتے ہیں کہ بیٹا آج آپ لوگ جارہے ہو اپنی عملی زندگی کی طرف تو میرے ساتھ وعدہ کرو کہ جس طرح میں نے آپ لوگوں کو عزت دی اچھی ٹریننگ دی اچھا رہن سہن مہیا کیا انسان اور انسانیت کی قدر کرنا سکھایا آپ اسی طرح جا کے عوام کے ساتھ نرمی اور پیار سے پیش آو گے اور میرے ساتھ وعدہ کرو کہ آپ لوگ آج اپنی ایک بری عادت ترک کر دو گے اور ایک اچھی عادت اپناؤ گے۔

بیٹا کبھی بھی ظلم اور جھوٹ کا ساتھ ہرگزنہ دینا۔ روزی کا فکر ہمیں نہیں ہونا چاہیے کیونکہ رزق کا وعدہ ہمارے اللہ تعالی نے کیا ہے اور وہ کبھی اپنے دعدے سے نہیں مکرتا۔ ایسے ہی ایک فرشتوں جیسے سینیئر افسر کا اس ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا اپنی سرکاری گاڑی سے اترے اور چاچے شیرے کو ایسے ملے جیسے ایک مہمان گھر کے مالک یا میزبان سے ملتا ہے۔ سلام دعاکے بعد چاچے شیرے نے اور صاحب کے ساتھ آئے ڈرائیور نے فوراً صاحب کا سامان گاڑی سے اتار کے ان کے کمرے میں پہنچایا جب چاچا شیرا ڈرائیور کے ہمراہ سامان کا بیگ لیے کمرے میں پہنچا تو ان سینیئر افسر نے چاچے شیرے سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا چاچا جی آپ کا نام کیا ہے؟

چاچے شیرے نے انتہائی ادب سے سامان رکھتے ہوئے جواب دیا سر جی میر انام شیر محمد ہے اور سب مجھے شیرا کہتے ہیں اچھا چاچا شیر محمد آپ کے علاوہ کوئی اور بھی ہے یہاں یا بس آپ ہی سارے معاملات دیکھتے ہیں، چاچا شیرا کہنے لگا جی سر جی میں ای ہوں اور صاحب جی سارے کام ٹھیک طرح کرلیتا ہوں آپ فکر نہ کریں، افسر نے جواب دیا اچھا ایسا کریں میں نے بس دو تین گھنٹے یہاں رکنا ہے، مجھے فی الحال چائے پلا دیں۔ چاچے شیرے نے دونوں ہاتھ ادب سے باندھتے ہوئے پوچھا اور بسکٹ یا کچھ اور بھی لے کے آؤں صاحب جی!

ان سینیئر افسر نے کہا نہیں میری گاڑی میں باقی ہر چیز موجود ہے میں رشید سے منگوا لیتا ہوں رشید ان کے ڈرائیور کا نام ہے اور وہ اپنے ڈرائیور سے کہنے لگے رشید آپ نے کچھ کھانا ہے تو چاچا شیر محمد کو بتا دیں۔ رشید نے بھی کہا نہیں سر میں بھی چائے ہی پی لوں گا سینیئر افسر نے کہا اچھا چاچا جی آپ تین کپ چائے لے آئیں اور رشید سے کہا کہ جاؤ آپ گاڑی سے چائے کے ساتھ جو کھانا چاہو لے آؤ چاچے شیرے نے انتہائی خلوص کے ساتھ تین کپ چائے تیار کی اور لے کے صاحب کے کمرے میں پہنچ گیا۔

صاحب نے چائے ٹیبل پہ رکھنے کا اشارہ کیا اور پاس پڑی کرسی پہ چاچے شیر محمد کو بیٹھنے کا کہا۔ دس سال کے عرصہ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کسی سینیئر افسر نے چاچے شیرے کو اپنے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے کی دعوت دی تھی۔ چاچا شیرا اب چاہتا تھا کہ وقت کا بے لگام گھوڑا کچھ دیر کے لیے تھم جائے اور یہ فرشتہ صفت انسان اسی طرح اس کے سامنے بیٹھا رہے اور وہ اپنے دل کی تمام باتیں کرلے۔ آج چاچے شیرے نے اپنے دل کی بات بھی پوچھ ہی لی۔

صاحب جی یہ جو باہر گیلری میں شیشہ لگا ہوا ہے اس پہ لال رنگ سے لکھا ہے ”کیا میں قابل عزت ہوں“ تو کیا صاحب جی سارے افسر قابل عزت نہیں ہوتے؟ چاچے شیر محمد کے اس معصوم اور انتہائی سنجیدہ سوال نے سینیئر افسر کو حیران کردیا انھوں نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا چاچاجی سب افسر قابل عزت ہی ہوتے ہیں۔ چاچے شیر محمد نے پھر سوال کیا تے صاحب جی فیر ایہندا کی مطلب اے؟ سینیئر افسر نے کہا چاچاجی اس کا مطلب ہے کہ جب کوئی افسر تیار ہوکے ڈیوٹی کے لیے نکلے تو اس عبارت کو پڑھے اور اپنا اور اپنے ضمیر کا محاسبہ کرے جب کوئی افسر اس عبارت کو پڑھتا ہے تو اسے اپنے اندر کا انسان اپنے عکس کی شکل میں اپنے سامنے کھڑا نظر آتا ہے اس عبارت کو پڑھنے کے بعد اگر کوئی افسر اپنے ضمیر کی آواز نہیں سنتا تو کم ازکم شیشے میں اپنے سامنے کھڑے انسان کی نظروں میں ضرور گِر جاتا ہے اور اپنی ہی نظروں میں گرا ہوا انسان ایک گالی کی طرح ہوتا ہے ایسی گالی جو ایک بڑے رتبے کا سینیئر افسر خود ہر روز اپنے آپ کو دے۔ ساری بات غورسے سننے کے بعد چاچے شیر محمد نے کہا ایہہ شیشہ تے فیر پُلس سمیت، واپڈا دفتر، گیس دفتر، عدالتاں، کچہریاں، صدر تے وزیراں دے دفتر وی ہونا چیہی دا اے صاحب جی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).