میرے چند روحانی تجربات


سب سے پہلے میں یہ بتا دوں کہ میں توہم پرست، شخصیت پرست یا مذہب کے حوالے سے جنونی یاجذباتی شخص نہیں اور نہ ہی میں اس قسم کی باتوں سے مرعوب ہوتا ہوں۔ میری رائے میں روحانیت ایسی طاقت کا نام ہے جس سے انسان کچھ بھی کر سکتا ہے اور یہ یقین، اعتماد سے بھی منسلک ہے۔ انسان اب تک اپنے دماغ، ذہن کا نہایت ہی معمولی حصہ استعمال کرنے کے قابل ہوا ہے۔ سب کرامات انسانی ذہن کی ہی ہیں جو ناممکن کو بھی ممکن کر سکتا ہے۔

میں بچپن سے ہی کسی غیر مرئی آواز وغیرہ سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اس کے کھوج میں لگ جاتا تھا۔ بچپن میں ایک بار اٹک کے ایک گاؤں شیرجھنگ گئے تو وہاں کے کئی افراد نے پورے اعتماد سے بتایا کہ انہیں کئی بار رات کے وقت مین سڑک سے گاؤں آتے ہوئے اپنے عقب سے یہ آواز آئی کہ ”خوش قسمت ایں کہ بچ گیا ایں“۔ ہم نے اس سے قائل کیا ہونا تھا ہم نے اسے ایک محاورہ بنا لیا۔

دس سال کی عمر میں ایک دن اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کی گئی ایک شرارت مجھے اب بھی یاد ہے۔ ہمارے گھر کا گیٹ پانچ فٹ اونچا تھاجبکہ میرے بھائی کا قد بھی تقریبا پانچ فٹ ہی تھا۔ میں اپنے بھائی کے کندھوں پر بیٹھ گیا، سامنے سفید چادر اوڑھ لی، سر چادر میں چھپا کر سر کی جگہ سینگ والے بکرے کی سری رکھ دی۔ ہم اندر کی طرف گیٹ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ سردیوں کی رات ساڑھے دس بجے کا وقت ہو گا۔ ان دنوں راولپنڈی کے علاقے ایف بلاک سیٹلائٹ ٹان میں اتنی آبادی بھی نہیں ہوتی تھی۔

میں بھائی کے کندھوں پہ سوار گیٹ سے بہت بلند ہو گیا تھا۔ چند منٹوں بعد پینٹ میں ملبوس ایک معزز شخص گھر کے سامنے سڑک سے گزرا، اس نے آدھا گیٹ عبور کیا ہی تھا کہ میں نے آواز دی بھائی صاحب ٹائم کیا ہوا ہے؟ ان صاحب نے بازو اٹھا کر گھڑی کی طرف دیکھا اور چہرہ میری طرف پھیر کر جواب دینا چاہا لیکن انسان کی جگہ سفید چادر میں ملبوس سات آٹھ فٹ لمبے انسان نما بکرے کو دیکھ کر انہوں نے یک دم آگے کی جانب دوڑ لگا دی۔ ہم بے ساختہ بلند آواز میں ہنس پڑے اور ساتھ ڈر بھی گئے کہ کہیں وہ شخص واپس آ کر ہمیں پکڑ نہ لے لیکن ہماری ہنسی سے ان صاحب کی رفتار اور بھی تیز ہو گئی۔ کہنے کا مطلب بھوت پریت ہمیں کیا ڈراتے، ہم خود بچپن میں مختلف انسانی تصورات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو ڈرانے جیسی شرارتیں بھی کرتے رہے۔

میں آٹھویں کلاس میں تھا جب مجھے اپنی زندگی کا پہلا روحانی تجربہ ہوا۔ ایک دن ہماری ایک عزیزہ ہمارے گھر آئیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آ ؤ روح کو بلاتے ہیں۔ میں نے اپنی طبعیت کے مطابق اس طرح کے کھیل کے ذریعے روح کو بلانے کو فراڈ قرار دے دیا۔ انہوں نے ایک کاغذ پہ انگریزی کے حروف میں A سے Z تک لکھا، اس کے نیچے 0 سے 9 تک کے ہندسے لکھ دیے اور آخر میں دو خانے بنا کر اس میں یس اور نو لکھ دیے۔ انہوں نے قرآن پاک کی کوئی سورت پڑھنی شروع کی، جو تین مرتبہ پڑھنی تھی۔

انہوں نے کئی بار پڑھا لیکن کوئی روح نہیں آئی۔ میں نے ان کی اس کوشش کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں نماز تو پڑھتی ہوں لیکن باقاعدگی نہیں رہ پاتی، اس کے لئے ضروری ہے کہ پڑھنے والا نماز کا پابند ہو۔ میں نے کہا کہ یہ تو بہانہ ہوا۔ اس پر انہیں غصہ آ گیا اور وہ مجھے اپنے ساتھ قریب ہی واقع اپنے گھر لے گئیں۔ ہم ڈرائینگ روم میں بیٹھے۔ ہماری عزیزہ نے اپنے ہمسائے سے اپنی ہم عمر ایک لڑکی کو بلایا جو سید خاندان سے اور نماز کی پابند تھی۔

اس لڑکی نے متعلقہ سورت تین بار پڑھی۔ کاغذ پر سیاہی کی دوات کا ڈھکن رکھا ہوا تھا۔ تین بار متعلقہ سورت پڑہنے کے بعد اس لڑکی نے کہا کہ اگر کوئی نیک روح یہاں موجود ہے تو وہ اس ڈھکن میں آ جائے۔ ایک دو بار ایسا کہنے سے کچھ نہ ہوا لیکن تیسری چوتھی بار ایسا کہنے کے بعد جب اس نے پوچھا کہ کیا تم اس ڈھکن میں آ گئے ہو تو ڈھکن چل کر ’یس‘ کے خانے میں آ گیا۔ روح اس ڈھکن میں آ گئی تو ہمسائے میں رہنے والی سید لڑکی یہ کہہ کر چلی گئی کہ مجھے کافی کام ہے، ہمارے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ہم چار افراد نے دوات کے ڈھکن پہ اپنی شہادت کی انگلیوں کی پوریں رکھی ہوئی تھیں۔ ہم بلند آواز میں یا اپنے دل میں سوال دہراتے تو وہ ڈبی مختلف الفاظ پر جا کر جواب دیتی۔ ہم نے پوچھا تمھارا نام کیا ہے، جواب ملا، خالد۔ ہم نے پوچھا تمھاری موت کیسے ہوئی اس نے کہا کہ 1965 کی جنگ میں۔

میں اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھنے کے باوجود اس پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ پہلے میں نے لکڑی کی اس سینٹرل ٹیبل کا ہر طرف سے معائینہ کیا کہ کہیں کوئی میگنٹ سسٹم تو کام نہیں کر رہا، یا کوئی تاریں وغیرہ لگی ہوں، لیکن ایسا کچھ نہ ملا۔ باقی سب سوال پوچھ پوچھ کر اس کھیل سے بور ہو گئے اور کمرے سے باہر نکل گئے۔ میں نے سوچا کہ انسان کا ذہن بہت طاقتور ہے، ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے ذہن کی طاقت سے ڈھکن کو ہلا رہے ہوں اور یہ سمجھ رہے ہوں کہ ڈھکن کو روح ہلا رہی ہے۔

میں نے اپنی شہادت کی انگلی ڈھکن پر متوازی طور پر یوں رکھی کہ انگلی کی محض کھال ہی بمشکل ڈھکن سے چھوتی تھی۔ اب ذہن کی طاقت سے ڈھکن ہلنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ لیکن ڈھکن پھر بھی ہلتا رہا، مجھے اپنے جواب ملتے گئے اور اس عمل پر اعتماد قائم ہوتا چلا گیا۔ میں نے اکیلے کمرے میں اس روح سے ایسے سوالات بھی سوچ میں پوچھے جو میں آواز میں پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ میرے سوالات بھی ایسے ہی تھے جیسے ایک 13 سال کا لڑکا سوچ سکتا ہے۔

کچھ دیر بعد باقی افراد بھی کمرے میں واپس آ گئے۔ ہم نے روح سے پوچھا تم واپس جانا چاہتی ہو، اس نے کہا نہیں، ہم نے کہا ہمارے سوالوں سے بوریت تو نہیں ہو رہی، اس نے جواب دیا، ہاں۔ آخر ہم نے خالد کی اس روح کو واپس چلے جانے کو کہا۔ اس کے بعد اب تک مجھے روح بلانے کا اس طرح کا کوئی تجربہ نہیں ہوا۔ میں وہ قرآنی سورت ڈھونڈتا بھی رہا لیکن علم نہ ہو سکا۔ ہاں یہ معلوم ہے کہ مختلف مذاہب کے افراد مختلف طریقوں سے روح بلا کر اس سے باتیں کرتے ہیں لیکن مجھے تلاش کے باوجود اب تک ایسا کوئی نہیں ملا۔

میری زندگی میں دوسرا، تیسرا اور چوتھا روحانی تجربہ تیس سال کی عمر تک پیش آئے۔ مسلم کانفرنس کے طویل عرصہ جنرل سیکرٹری رہنے والے بزرگ کشمیری رہنما محمد علی کنول صاحب آزاد جموں و کشمیر کونسل کے ممبر بنے تو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ راولپنڈی آئے۔ ان کا قیام ہمارے گھر تھا۔ کنول صاحب کی اہلیہ علیل تھیں اور راولپنڈی میں ان کا میڈیکل چیک اپ بھی کرایا جا رہا تھا۔ ایک شب سب ایک شادی میں شرکت کے لئے چلے گئے۔ گھر میں کنول صاحب کی اہلیہ اور میں رہ گئے۔

نا معلوم کیوں اس رات میں سب کی واپسی تک کنول صاحب کی اہلیہ کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کرتا رہا، وہ بستر میں بیٹھیں خاموشی سے مسکرا مسکر اکر میری باتیں سنتی رہیں۔ اگلی صبح میں کالج جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک ساتھ والے کمرے سے کنول صاحب کی بیٹی ( شمی باجی ) کے چیخنے کی آواز آئی کہ اطہر بھائی دیکھو امی کو کیا ہو گیا ہے۔ میں بھاگتے ہوئے اس کمرے میں پہنچا تو دیکھا کہ آنٹی کمرے میں باتھ روم کے دروازے کے قریب زمین پہ گھٹنوں کے بل گری ہوئی تھیں میں نے انہیں پکڑ کرزمین پہ ہی بٹھانے کی کوشش کی، اسی اثنا میں مجھے یک دم یوں محسوس ہوا کہ کوئی گرم اور نرم سی چیز چڑیا کی طرح پھڑک کر میری گود سے نکل گئی ہے۔

یقینا یہ روح ہی تھی۔ تیسرا روحانی تجربہ یوں پیش آیا کہ ایک دن میں اپنے دوست کے ساتھ گھر کے باغیچے میں کھڑا تھا کہ اچانک گھر کے اندر سے میری والدہ نے نہایت اونچی آواز میں چیخ کر بتا یا کہ میری خالہ کے گھر چوری ہو گئی ہے۔ والدہ کی طرف سے اونچی آواز میں چوری کی اس غیر متوقع اطلاع سے مجھے واضح طور پر محسوس ہوا کہ میرے جسم کے اندر کوئی چیز دو بار تیزی سے پھڑکی ہے۔

چوتھا تجربہ ذرا الگ نوعیت کا رہا۔ اپنی شادی سے قبل ایک رات میں محلے میں کسی گھر سے رات کو ساڑھے گیارہ، بارہ بجے واپس آیا اور آتے ہی اپنے کمرے میں سونے کی تیاری کرنے لگا۔ میں نے سفید رنگ کا شلوار قمیض پہنا ہوا تھا۔ میری قمیض کی جیب میں میرا پرس تھا، گرمیوں کے دن تھے میں نے قمیض اتار کر تہہ کر کے اپنے تکیے کے نیچے رکھ دی۔ میری عادت ہے کہ میں چادر اوڑھ کر سوتا ہوں۔ صبح ناشتہ لانے کے لئے گھر والوں نے آ کر مجھے اٹھایا، میں نے اٹھ کر تکئے کے نیچے سے قمیض نکال کر پہنی، میری نظر قمیض اور شلوار پر پڑی تو میں حیران رہ گیا، شلوار اور قمیض پہ ہر جگہ خون کے چھینٹے تھے۔

رات کو سوتے ہوئے کپڑے بالکل صاف تھے۔ میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اگر کوئی جان بوجھ کر بھی خون وغیرہ گرائے تو اس طرح تمام شلوار قمیض پر دھبے نہیں پڑ سکتے۔ والدہ پریشان ہوئیں اور انہوں نے روحانیت میں مشہور کئی افراد سے رابطے کیے، انہیں میرے کپڑے بھی دکھائے، واضح طور پر کچھ پتہ نہ چل سکا، دھبے خون کے ہی تھے ”اکثر نے خطر ناک حملہ قرار دیا لیکن واضح طور پر کوئی کچھ نہ بتا سکا۔ ایسے ہی ایک صاحب نے کہا کہ خوش قسمت ہو کہ بچ گئے، آسمانی مخلوق کا حملہ تھا۔ یعنی وہ سب یہ کہنا چا رہے تھے کہ“ خوش قسمت ایں کہ بچ گیا ایں ”۔

پانچواں روحانی تجربہ باقی روحانی تجربات سے الگ قسم کا ہے اور میرے لئے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ ایک رات میں گہری نیند سویا ہوا تھا کہ اچانک رات ڈھائی تین بجے میں نے اپنے بستر سے دو تین فٹ کے فاصلے سے کسی لڑکی کی نہایت بلند اور تیز چیخ سنی۔ چودہ، پندرہ سال کی لڑکی کی وہ آواز اس قدر بلند تھی کہ میں یک دم بستر پہ اٹھ بیٹھا۔ مجھے یقین تھا کہ کسی لڑکی نے میرے بستر کے بہت قریب آ کر مجھ سے دو تین فٹ کے فاصلے پہ بہت ہی اونچی آواز میں ایک لمبی چیخ ماری ہے۔

میں اٹھتے ہی بستر سے کودا اور بھاگتے ہوئے پہلے باتھ روم میں دیکھا، اسی تیزی سے بھاگتے ہوئے ساتھ والے کمرے میں دیکھا جہاں میری دونوں بیٹیاں سوئی ہوئی تھیں، گھر کا چپہ چپہ چھان مارا، الماریاں، کونے کھدرے بھی چیک کیے، دروازے سب بند، تمام گھر کی مکمل تلاشی لے کر واپس کمرے میں آیا لیکن کچھ پتہ نہ چل سکا۔ اس لڑکی کی چیخ حقیقت تھی میرا خواب نہیں، اس کا دوسرا ثبوت یہ کہ میری اہلیہ بھی وہ چیخ سن کر میرے ساتھ ہی میری ہی طرح ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی تھی۔ میرا گھر سیٹلائٹ ٹاؤن سکیم کے ایف بلاک میں واقع ہے اور کبھی یہاں کوئی چھوٹا سا گاؤں ہوا کرتا تھا۔

چھٹا تجربہ یہ کہ چند سال قبل میں نے یک دن گھر میں محسوس کیا کہ ٹی وی لانچ کے ہلکے اندھیرے میں کوئی کم عمر لڑکی میرے سامنے سے گزری ہے اور اس نے دیہاتی لڑکیوں کی طرح چادر سے اپنے سر اور جسم کواچھی طرح لپیٹا ہوا تھا۔ پہلے مجھے لگا کہ شاید میری کوئی بیٹی ہے، لیکن اسی جگہ سے میں نے دائیں ہاتھ پہ کمرے کے دروازے سے دیکھا تو میری دونوں بیٹیاں، جو اس وقت چند سال کی تھیں، کمرے میں موجود تھیں۔ پھر وہ کون تھی؟ میں دو قدم بڑھا کر ٹی وی لانچ میں داخل ہوا، سب طرف دیکھا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ ان سب تجربات کے بعد میں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ رہا ہوں، مجھے تو اب تک کوئی جواب نہیں ملا، اگر آپ جانتے ہوں تو مجھے ضرور بتائیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).