منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان بیت المال عون عباس سے ایک مکالمے کی روئیداد


اسی سلسلے میں ان کے ممبرز اور قائدین سے ملاقاتیں ہونے لگیں یہاں تک کہ میری عمران خان سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ ایک شاندار اور اصولوں کے پکے انسان ہیں جو ملک کی بہتری کے لئے صحیح معنوں میں کچھ کرنے کا حوصلہ اور سوچ رکھتے ہیں۔ وہ زبانی خرچ نہیں بلکہ عملی اقدامات پر یقین کرنے والے شخص ہیں۔ عمران خان کے بارے میں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ وہ زندگی میں بہت زیادہ جدوجہد کر رہے تھے لیکن انھوں نے ہار تسلیم نہیں کی۔

میں نے پاکستان تحریک انصاف کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا اور پھر اس سب کے دوران ایک افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔ سال 2005 میں بالاکوٹ سمیت ملک کے شمالی علاقوں میں شدید زلزلہ آیا۔ اس قدرتی آفت سے آنے والی تباہی ناقابل بیان تھی جس میں ایک لاکھ لوگ جاں بحق ہوئے۔ زلزلے سے ہونے والی تباہی کو میں نے قریب سے دیکھا ور مجھے شدید مایوسی ہوئی۔ میں نے کچھ عملی اقدامات کرنے کا عزم کیا اور ملتان میں زلزلہ زدگان کی مدد اور بحالی کے لئے لوگوں میں مہم چلائی اور زلزلہ متاثرین کے لئے خوراک، کپڑے، کمبل اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء جمع کیں۔

تباہی بہت زیادہ اور اچانک ہوئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں نے دل کھول کر امداد دی۔ ہمارے پاس سامان ضرورت کافی جمع ہو گیا تھاجس سے بہت سے متاثرین کی مدد کی جاسکتی تھی۔ اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر میں نے ٹرک کرائے پر لئے اور یہ سامان لے کر ملتان سے بالاکوٹ کی طرف عازم سفر ہو۔ وہاں پہنچ کر ہم نے ایک فلور مل میں گودام کرائے پر لیا اور تمام اشیاء وہاں جمع کر دیں۔ اب یہ جگہ ہمارا بیس کیمپ ٹھہر گئی۔ ہر صبح میں اپنے دوستوں کے ساتھ امدادی سامان لے کر دور دراز گاؤں دیہاتوں کے ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے نکل جاتاجس سے ہمیشہ دلی سکون اور بے پناہ راحت ملتی۔

مجھے آج تک وہ دن یاد ہے جب میں اس علاقے کے ایک چھوٹے سے دور دراز گاؤں اوگی میں گیاجہاں ابھی تک اس سانحے میں شہید ہونے والوں کی لاشیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں۔ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ لاشوں کا تعفن محسوس کیا تھاجس سے کچھ وقت کے لئے میں انتہائی ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہو۔ میں ان تقدیر اور مصیبت کے ماروں کا چہرہ کبھی نہیں بھول سکتا، خاص طور پر ان بچوں کے چہروں کو جو اپنے ماں باپ کھو چکے تھے اور اب ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور ایسے والدین جو اس جانکاہ سانحے میں اپنے بچے کھو چکے تھے اور جنھیں باقی زندگی ناقابل برداشت دکھ اور محرومی کے احساس کے تحت گزارنی تھی۔

ہر طرف یاس و نامیدی کا دوردورہ تھا۔ یہ لوگ پہلے ہی غربت کے ہاتھوں ایک کڑی زندگی بسر کر رہے تھے اور اب انھیں اپنے خاندان اور اپنے پیاروں سے محروم ہونے کے عذاب نے آ گھیرا تھا۔ بہت سے کیس ایسے تھے کہ گھر چلانے والے داعی اجل کو لبیک کہہ چکے تھے۔ ان کا مستقبل کیا ہو گا اور ان کے گہرے زخموں پر کون اور کیسے مرہم رکھے گا اور اس طرح کے بے شمار سوالات نے مجھے پریشان اور جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔ اس تباہی کے دامن میں بہت سی ایسی کہانیاں بھی تھیں جو بہادری اور ایثار کی عکاسی کرتی تھیں۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں ایک گاؤں میں کسی خاندان کے پاس فروٹ کا کریٹ لے کر گیا اور وہ ہر لحاظ سے ایک ضرورت مند خاندان تھاتاہم انھوں نے ایک اور خاندان کے بارے میں بتایا کہ جنھیں اس فروٹ کی ان سے بھی زیادہ ضرورت تھی۔ اور جب میں دوسرے خاندان کے پاس پہنچا تو انھیں نے مجھے مشورہ دیا کہ یہ کسی اور زیادہ ضرورت مند کو دے دیے جائیں۔ وہاں ہر کوئی دوسرے کے لئے قربانی دینا چاہتا تھاجس سے سچی بہادری اور ایثار کا اظہار ہوتا تھا۔

یہ تمام تجربہ میرے لئے شاندار تھا اور میرے خیال سے یہ میری زندگی کے لئے ایک نیا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ اپنے آخری دنوں میں، میں عبادت کے لئے گیا اور تہیہ کیا کہ میں اب ملازمت چھوڑ کر اپنی باقی ماندہ زندگی ہمیشہ کے لئے معاشرے کے پسے ہوئے ضرورت مندوں اور غریبوں کی مدد کے لئے وقف کر دوں گا۔ کوئی بھی شخص سمجھ سکتا ہے کہ بالاکوٹ اور دیگر علاقوں میں آنے والا زلزلہ ایک قدرتی تباہی تھی جس سے مفر ممکن نہیں اور جس پر انسان قادر نہیں ہے۔

اور یوں ہم حکومت پر سارا بوجھ ڈال سکتے ہیں کہ یہ اس کے فرائض میں ہے کہ وہ ان لوگوں کی بحالی کے اقدامات کے لئے مدد کرے۔ لیکن ہمارے ہی جیسے انسانوں، بے ایمان سیاستدانوں اور دیگر کرپٹ عناصر کی بداعمالیوں کے نتیجے میں لوگوں کو پہنچنے والے دکھ اور تکلیف کو آسانی سے برداشت نہیں کر سکتا جن کے پاس طاقت اور اثرورسوخ ہوتا ہے لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتتے ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اگر میں نے بڑے پیمانے پر کچھ بہتر کرنا ہے تو کسی ایسی پوزیشن کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی جہاں مجھے طاقت، اختیارات اور اثرورسوخ حاصل ہو۔

یہ وہ موڑ ہے جہاں سے میں نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر عملی سیاست میں قدم رکھا۔ تحریک انصاف کا یہ فلسفہ اور منشور تھا کہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانا ہے جو میری سوچ اور اور ویژن سے میل کھاتا تھا سو میں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کردیا۔ پارٹی قیادت کی طرف سے مجھے پاکستان تحریک انصاف کا ریجنل سیکرٹری ساؤتھ پنجاب مقرر کیا گیا۔ یہ میرے سیاسی سفر کے لئے ایک بہترین آغاز ثابت ہواجس سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔

بہت سے مواقع پر مجھے ذاتی حیثیت میں عمران خان سے ملاقات کا موقع ملاجس سے مجھے حوصلہ افزائی ملتی تھی۔ کچھ کر گزرنے کا جذبہ اور جنون میرے اندر مزید گہرا ہوتا گیا۔ پچھلے سال الیکشن کا انعقاد ہوا اور مجھے توقع تھی کہ میں الیکشن کے لئے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے اور ایم این اے بننے میں کامیاب ہو جاؤں گاجس سے سماج کی بہتری کے لئے میرے خوابوں کو تعبیر ملے گی۔ پارلیمنٹ میں لوگوں کی آواز بن کر میں مرکزی سطح پر پالیسی میکنگ میں حصہ لے سکوں گا اور اپنے ملک کی بہتری کے لئے مشورے دے سکوں گا اور غریب لوگوں کی بھلائی کے لئے مجھے ایک بہترین میسر حاصل ہو سکے گا۔

لیکن مجھے ٹکٹ نہیں دیا گا جس سے وقتی طور پر مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ تاہم قدرت نے میرے لئے کوئی اور فیصلہ کر رکھا تھا۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد مجھے منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان بیت المال کے عہدے کی پیش کش کر دی۔ زندگی کے جس سفر پر میں گامزن تھایہاں سے میری زندگی کا ایک نیا باب کھل گیا۔ یہ میں نے اپنے سفر زندگی کی چند جھلکیاں بیان کی ہیں۔ میں اس عزت افزائی کے لئے خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ خدا نے مجھے اس عہدے سے نواز ا ہے جہاں میں بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں خوشیاں لا نے کا سبب بن سکتا ہوں۔

جیسا کہ کہاوت ہے کہ عظیم طاقت عظیم ذمہ داریاں عائد کرتی ہے۔ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ جب تک میں اس منصب پر فائز رہوں گامیں پاکستان میں غربت کے خاتمے کی جنگ اس وقت تک لڑوں گا جب تک کہ میں یہ جنگ جیت نہ جاؤں۔ اپنی موجودہ پوزیشن پر آنے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ سسٹم کو تبدیل کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن یہ ناممکن نہیں ہے۔ راست باز قیادت کے تحت اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں عظیم راہنماؤں نے اپنے ویژن اور تدبر سے اپنے ملکوں کی کایا پلٹ دی۔

ایسا راتوں رات ممکن نہیں ہوتابلکہ اس کے لئے سالہا سال تک خون پسینہ ایک کرتے ہوئے محنت کرنا پڑتی ہے اور بالآخر انہونی ہو جاتی ہے۔ حقیقی تبدیلی لانے کے لئے ہمیں اپنے ثقافتی اور ذہنی معیارات کو تبدیل کرنا ہو گا جس کے لئے تعلیم کے چراغ جلانا ہوں گے۔ تبدیلی کا سفر شروع ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدشامل حال رہی تو ہم جلد اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے۔ آئندہ کسی دوسری نشست میں غربت کے خاتمے میں پاکستان بیت المال کے کردار، مستقبل میں اس ادارے کی تعمیر نو، پاکستان میں غربت کی بنیادی وجوہات، تعلیم غربت کے خاتمے میں کس طرح مددگار ثابت ہو سکتی ہے، تعلیم کے فروغ میں بیت المال کے کردار، یتیموں کی بحالی کے لئے بیت المال کے قائم کردہ ادارے پاکستان سویٹ ہومز، پاکستان بیت المال کے پلیٹ فارم پر حاصل ہونے والی کچھ کامیابیوں اوریہ کہ آپ اس ادارے کے لئے اپنا کردار کس طرح ادا کر سکتے ہیں اس پر روشنی ڈالوں گا۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2