اسد عمر کو کیوں نکالا گیا؟


وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کے مخالفین کے مطابق ان کی ناکامی کا اعتراف اور دلیل ہے جبکہ ان کے حامیوں کے لیے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو وزیر بھی کارکردگی دکھا نہیں پائے گا خان صاحب اسے نکال باہر کریں گے۔

اسد عمر کو کیوں نکالا گیا؟

کچھ دنوں سے یہ تبصرے کیے جارہے تھے کہ اسد عمر کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے خان صاحب شاید انہیں منصب سے ہٹا دیں۔ اگرچہ حکومت نے کابینہ میں ردوبدل کی تردید کردی تھی لیکن اب اسد عمر نے بھی کہا اور تازہ ترین اطلاع بھی ہے کہ کابینہ میں رد وبدل کیا جارہا ہے۔

سمجھ نہیں آتا جھوٹ سے نفرت کے دعویدار خان صاحب نے اس معاملے میں سچ بولنے سے احتراز کیوں کیا اور قوم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا؟ بہرحال سوال یہ ہے کہ اسد عمر کو کیوں نکالا گیا؟
کیا اسد عمر کو خراب کارکردگی کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا یا ان کے استعفیٰ کا تعلق پارٹی کی اندرونی سیاست سے ہے؟

اگر انہیں کارکردگی کی بنیاد پر ہٹایا گیا ہے تو اس سے زیادہ فروتر کارکردگی تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرإاعلیٰ کی ہے پھر ان سے کب استعفیٰ لیا جارہا ہے؟

اسد عمر کے ٹویٹ اور بعد میں پریس کانفرنس میں کی گئی باتوں سے لگتا ہے کہ انہوں نے استعفیٰ تب دیا جب انہیں کہا گیا کہ آپ کی وزارت تبدیل کی جارہی ہے۔ تو کیا وزارت تبدیل کرنے کی بات اس لیے کی گئی کہ ان کی کارکردگی معیاری نہیں تھی؟

اگر یہ بات ہے تو کھل کر قوم کو حقیقت بتائی جائے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا جائے کہ ان کے بعد حکومت اور ان کے جانشین کے پاس ملکی معیشت کودرپیش مسائل کے حل کا کیا پروگرام ہے؟ اگر ان کے بعد بھی پہلے کی طرح بیرونی قرضے، روپے کی قدر میں کمی، گیس وبجلی و پٹرول کی قیمتوں میں اضافے وغیرہ جیسی پالیسیوں سے کام چلایا جانا ہے تو پھر اسدعمر کو نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

اگر ایسا کوئی پروگرام نہیں دیا جاتا تو پھر سمجھا جائے گا کہ ان کو منصب سے اس لیے ہٹایا گیا ہے کہ انہوں نے پارٹی کی اندرونی سیاست میں ایک ایسے دھڑے کی حمایت کی جسے خان صاحب کی حمایت حاصل نہیں تھی۔

اس تاثر کی بنیاد پریس کانفرنس کے دوران اسد عمر کی یہ بات بھی ہے کہ ”وہ پاکستان کے لیے کچھ کرنے آیا تھا، جو سازشیں کررہا ہے وہ کرے، سازشوں جیسے معاملات میں نہیں پڑتا۔ “

اگر تو وہ سازش کا شکار ہوئے ہیں تو پھر یہ ملتان کے مخدوم کے مقابلے میں ترین گروپ کی مضبوطی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ اس کا مطلب پھر یہ بھی ہے کہ دیوتا کو خوش کرنے کے لیے ابھی اس گروپ سے تعلق رکھنے والے مزید وزیر بھی بھینٹ چڑھائے جائیں گے۔

حکومتی معاملات میں سپریم کورٹ کی طرف سے نا اہل جہانگیر ترین کی بڑھتی ہوئی ظاہری شرکت اور اثر ورسوخ سے کیا یہ مطلب لیا جائے کہ وزیراعظم عمران خان صرف اپنے مخالفین کی عدالتی سزاٶں کو ہی قابل نفاذ سمجھتے ہیں؟ اس طرزعمل سے حکومت کو آئندہ دنوں میں کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).