مسلم لیگ (نواز) اور مسلم لیگ (ق) میں خفیہ ملاقاتیں: پنجاب میں نئے وزیراعلیٰ کے لئے گٹھ جوڑ


وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی کرسی وزارت اعلیٰ خطرے میں ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور ق لیگ میں خفیہ ملاقاتوں نے وزیراعلیٰ کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ مسلم لیگ (نواز) نے نئے وزیراعلیٰ کیلئے جنوبی پنجاب کے سردار اویس لغاری کو نمبر گیم پوری کرنے کا ٹاسک دے دیا۔

صحافتی اطلاعات کے مطابق بجٹ تک ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی جس کے کامیاب ہونے پر سردار اویس لغاری وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مقتدر حلقوں نے وزیراعظم عمران خان پر واضح کر دیا ہے کہ وہ وفاق اور بالخصوص پنجاب کی گورننس سے مطمئن نہیں ہیں، اس لئے پنجاب کو فوری طور پر ٹھیک کیا جائے۔ اس پیغام کے بعد وزیراعظم 10 اپریل کو لاہور آئے اور وزیراعلیٰ پنجاب کو واضح الفاظ میں بتا دیا کہ آپ کی وجہ سے مجھے باتیں سننا پڑتی ہیں جس پر وزیراعلیٰ نے بھی شکایات کے انبار لگا دئیے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبے کی دو اعلیٰ شخصیات کی بے جا مداخلت کی شکایت کی اور بیوروکریسی کے رویے کے بارے میں بھی وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔ عمران خان نے کہا آپ کو ہر طرح سے اختیار دیا گیا ہے۔ آپ خود کو اہل ثابت کریں۔ اس دوران پنجاب کی اعلیٰ بیوروکریسی کو بھی بلا کے پیغام دیا گیا کہ اگر صوبے میں رہنا ہے تو کام کریں۔ وزیراعظم کی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد وزیراعلیٰ نے بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی ہے۔

دوسری جانب حمزہ شہبازشریف اور مونس الٰہی کے درمیان کئی خفیہ ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ اگرچہ ق لیگ اور مونس الٰہی ان ملاقاتوں سے انکاری ہیں مگر ذرائع کا اصرار ہے کہ ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ن لیگ اور ق لیگ فارمولے کے تحت جنوبی پنجاب کے وزیراعلیٰ کے مقابلے میں جنوبی پنجاب کی شخصیت کو بندے پورے کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے اور متوقع طور پر سردار اویس لغاری ن لیگ کی طرف سے وزیراعلیٰ کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔

اس حوالے سے بندے توڑنے کا خصوصی ٹاسک انہیں سونپ دیا گیا ہے اور ذرائع کے مطابق اس وقت تک 16 ایم پی ایز نے اویس لغاری کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔ ان میں پی ٹی ائی اور سابق جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے ایم پی ایز شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ق اور ن لیگ رابطے صرف حمزہ اور مونس تک محدود نہیں ہیں بلکہ چودھری شجاعت حسین اور شہبازشریف کے درمیان بھی لندن میں ملاقات متوقع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).