اسد عمر کی رخصتی اور بادشاہ گروں کی مشکلات


ابھی وزیر اطلاعات و خارجہ اور تبدیلی سرکار کے دوسرے جادو بیان لاؤڈ سپیکروں کے بیانات کی بازگشت فضا میں موجود تھی کہ وزیر خزانہ جناب اسد عمر نے اپنے کپتان کے حکم پر وزارت سے مستعفی ہونے کی خوش خبری سنا دی۔ ان کی بصد خواری و رسوائی اپنے عہدے سے رخصتی سب پاکستانیوں کے لیے خوش کن اور خوش آئند و باعث اطمینان ہے۔ ابھی دو تین روز پہلے ہی اسد عمر نے اس طرح کی خبروں پر طنز آمیز پیرائے میں مرزا غالب کی مشہور غزل کے مطلع کا پہلا مصرع پڑھا تھا جو یہ تھا

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

آج راقم ان کی خدمت میں اسی غزل کا ایک شعر پیش کرنا چاہتا ہے جو صوتی اور معنوی گہرائی کی وجہ سے ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

اسد عمر کی رخصتی کو کچھ باخبر حلقے وزیر اعظم کے فیصلے کے بجائے بت گروں کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ابھی کل ہی تو وزیراعظم نے اپنے رتن فواد چودھری کے ذریعے قوم کو پیغام دیا تھا کہ وزارتوں کی تبدیلی کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ حکومت نے تو ان صحافیوں کو پیمرا کے ذریعے نوٹس بھی بھجوا دیے ہیں جنہوں نے یہ خبر بریک کرنے کی جسارت کی تھی۔ ہمیں تو ان کی رخصتی جادو کی چھڑی کا کمال لگتا ہے۔ ادھر بلاول بھی بہت خوش ہیں کہ دہشت گردوں سے دیرینہ تعلقات رکھنے والے ایک وزیر کی تو چھٹی ہوئی۔

اسد عمر کی جبری رخصتی کے کارنامے میں جس کسی کا بھی کردار ہے باوجود تاخیر کے ہم اس فیصلے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ اپیل بھی کرتے ہیں کہ آٹھ ماہ میں معاشی ارسطو کے ملک کی معیشت کا گلشن اجاڑنے والے اور اس کے سرپرست عمران خان اور عمران کے سرپرستوں پر سپریم کورٹ میں کیس چلایا جائے۔ جو نابغہء روزگار قوم کو ایک کروڑ نوکریوں کی خوش خبری سنا رہا تھا خود صرف آٹھ ماہ میں بے روزگار ہو نئے پاکستان کا عبرت انگیز نوحہ بن گیا۔ کاش وزیر اعظم اسد عمر کی شان میں قصیدہ گوئی سے قبل ان کی صلاحیتوں کا تھوڑا بہت ادراک کر کے سیاسی بصیرت کا کچھ تو ثبوت دیتے۔ استعفی تو ایسے بے ہنر اور تہی داماں نابغے کو ملک پر مسلط کرنے والے سلیکٹڈ سے لینا چاہیے۔ بادشاہ گروں کے اس فیصلے پر ہم اتنا ہی کہیں گے کہ

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

اسد عمر کا وزیراعظم کی طرف سے وزارت توانائی کی پیشکش کو قبول نہ کرنا بھی وزیراعظم، اسد عمر اور حکومتی بینچوں میں اختلافات اور شکر رنجیوں کا پتہ دیتی ہے۔ نا اہلی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی وجہ سے وزیر خزانہ کی رخصتی کا واقعہ اپنی جگہ مگر ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتایے کہ پوری حکومتی ٹیم میں کوئی اہل اور پیشہ ورانہ مہارت سے مزین دانہ بھی ہے؟ جدھر نظر جاتی ہے کھلنڈروں اور مسخروں کا ایک غیر سنجیدہ ٹولہ کار حکمرانی کے نام پر فساد پھیلاتا پھرتا نظر آتا ہے ہے۔

ذرا اپنے وسیم اکرم پلس کو دیکھیے۔ کیا یہ شخص گیارہ کروڑ آبادی والے صوبے کی وزارت عظمٰی کا اہل ہے؟ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے اور بد زبانی و دریدہ دہنی کے پیکر فواد چودھری وزارت اطلاعات کے لیے فٹ ہیں؟ وزیر اعظم کی مرحوم ایرانی صدر سے تفصیلی ٹیلیفونک گفتگو کروانے والے شہر یار آفریدی وزارت کے قابل ہیں؟ اسی طرح بارشوں کی کثرت کا سہرا عمران کے سر باندھنے والی زرتاج گل کے سر پر وزارت کا تاج زیب دیتا ہے؟ عمران کے وزیراعظم بنتے ہی باہر کے ملکوں میں پڑا دو سو ارب ڈالرز ملک میں لانے کی شیخی بھگارنے والا مراد سعید وزارت کا اہل ہے؟ اسی طرح کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات میں گوڈے گوڈے دھنسا ہوا پرویز خٹک وزیر داخلہ بننے کے لائق ہیں؟ یہ اس طویل فہرست کے چند رتن ہیں جن کے ہاتھوں میں بت گروں بلکہ غارت گروں نے وزارتیں دے دی ہیں۔

خود کپتان ہی کو دیکھ لیجیے۔ کیا اس کی بصیرت، ساکھ، اخلاقیات، انداز گفتار، حرکات و سکنات، عادات و خصائل اور اہلیت و لیاقت ایک ایٹمی پاکستان کا وزیراعظم بننے لائق ہیں؟ بادشاہ گروں نے اگر اپنی عظیم غلطی کی تلافی کا ارادہ کر ہی لیا ہے تو قسطوں میں فیصلے نہ کریں بلکہ ایک ہی بار مظلوم پاکستانیوں کی نا اہلوں کے شکنجے میں پھنسی ہوئی نحیف و نزار جانوں کو نجات دلائیں۔ فی الحال تو متبادل وزیر خزانہ ہی نہیں مل رہا۔ اسد عمر نے معیشت کا بیڑا اس قدر غرق کیا ہے کہ کوئی اس دلدل میں گھسنے کے لیے تیار نہیں۔ آنے والے دنوں میں جب پوری قوم مہنگائی، گرانی، لوڈ شیڈنگ، افراط زر اور دوسرے دیو ہیکل مصائب و آلام کے سونامی میں ہچکولے کھاتی نظر آئے گی تو سب گالیاں وزیر خزانہ ہی کو پڑیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).