اندھیر نگری کا پھندا اسد عمر کی گردن میں۔۔۔


اسد عمر ہمارے حلقے سے منتخب نمائندہ بھی ہیں، اس لئے ان  کی وزارت کے جانے کا ہمیں زیادہ دکھ ہونا چاہیئے، مگر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صاحب صرف انتخابات کے موقع پر ایک آدھ بارجلوہ دکھانے پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ ووٹ کون دے گا اور کیوں دے گا۔ حلقے کے لوگ بھی ان سے کوئی امید نہیں رکھتے کیونکہ کوئی بھی براہ راست ان سے شناسائی نہیں رکھتا اور جو ان کے شناسا ہیں وہ وہ بھی شاکی ہیں پر چپ رہنے پر مجبورہیں کیونکہ ان کو بھی چپ چاپ ووٹ دینے کے احکامات کہیں اور سے آتے ہیں، جہاں شکایت کرتے ہوئے بھی ان کے پر جلتے ہیں۔

اسد عمر کے بڑی توپ ہونے کی خبر یں پچھلی حکومت کے دوران ہی گرم ہوئی جب وہ اسحاق ڈار اور نواز شریف کی حکومت کو اسمبلی میں اپنی شستہ اردو اور صاف انگریزی زبان کے ساتھ نشانے پر رکھتے تھے۔ بغل میں فائلیں دبائے جب اسمبلی کے فلور پر آتے تھے تو بغیر داڈھی اور گھنی مونچھوں کے کلین شیو اسد عمر ہمارے روایتی سیاستدانوں کے برعکس ایک لائق فائق، شائستہ اور مخلص صاحب بصیرت معلوم ہوتے تھے جن کی موٹے عدسوں والی نظر کی عینکوں کے پیچھے سےعقابی نگائیں پس پردہ حقائق کا بھی ادراک رکھتی ہیں۔

اسمبلی میں اپنی زمینی حقائق پر مبنی اعداد و شمار سے بھر پور تقریر سے سننے والوں کا دل موہ لیتے تھے۔ اپنی سیاسی جماعت کے دیگر خوش گلو اور خوش کلام راہ نماؤں کے برعکس ان کی زبان میں قدرے شائستگی اور ادب آداب کا عنصر نمایاں ہوتا تھا جس کی وجہ سے لوگ ان کو شائستہ تہذیب کا نمائندہ بھی سمجھتے تھے جیسے آج کل ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے چند وزرا ء کو یہ اعزاز حاصل ہے۔

اسمبلی ہال سے باہر آتے ہی سبزہ زار پر میڈیا کے نمائندے اسد عمر کا استقبال کرتے تھے اور وہ اپنی تقریر ایک ہلکے پھلکے انداز میں پھر سے دہراتے جس میں اب چٹکلے بھی شامل ہوتے تھے جو فوری خبر بن کر ٹی وی کے سکرینوں میں فلیش کر جاتے تھے۔ اسد عمر پل بھر میں اسمبلی ہال سے ہر ڈرائنگ روم میں بیٹھے لوگوں کے نہ صرف دل میں اتر جاتے بلکہ نواز شریف کے دور میں برپا پاناما کے ہنگامے میں امید کی ایک کرن بن کر ذہن میں بھی اتر جایا کرتے تھے۔

انتخابات ہوئے تو کسی اور کے جیتنے اور حکومت میں شامل ہونے کی یقینی امید نہیں تھی سوائے اسد عمر کے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس نے اپنا کام سالوں پہلے سے ہی شروع کر رکھا تھا جب پی ٹی آئی دھرنوں میں بیٹھی حکومت گرا رہی تھی۔ جس حلقے سے وہ انتخابات لڑے، وہاں لوگوں نے پہلے سے ہی انھیں وزیر خزانہ کہنا شروع کیا تھا اور پوری انتخابی مہم رکن قومی اسمبلی کے علاوہ وزیر خزانہ کے انتخاب کی بھی تھی۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عمران خان کے نااہل ہونے کے امکانات پیدا ہوئے تو پی ٹی آئی کے کچھ احباب کے ساتھ ساتھ حکومت دینے لینے ولے بھی مطعمئن نظرآئے جن کا کہنا تھا اصل حکومت تو اسد عمر کی ہوگی جن کے انتخاب کے لئے یہ سب کچھ رچایا جا رہا ہے۔ اندرونی خبر رکھنے والوں کا قبل از انتخابات بہ بانگ دہل یہ کہنا تھا کہ اگر عمران خان میدان میں رہے تو اسد عمر وزیر خزانہ بن کر اور میدان سے باہر ہوئے تو وزیر اعظم بن کر معیشت کو راہ پر لائیں گے جس کے بعد ملک سے غربت کے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔

ملک کی ڈوبتی معیشت کی نیا کے ناخدا بن کر اسد عمر آ گئے۔  ممبران اسمبلی کے حلف اٹھانے اور حکومت کی تشکیل سے پہلے ہی اسد عمر نے بطور وزیر خزانہ اپنے اہداف اور حکمت عملی وضع کرنا شروع کر دی۔ صحافیوں اور میڈیا کو خصوصی انٹرویوز دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دنیا حیران رہ گئی کہ معیشت کے اتنےآسان سے مسائل بھی نواز شریف کی نااہل حکومت سدھار نہ سکی۔ لوگوں کو یہ یقین بھی ہوگیا کہ ان کے برے دن ختم ہونے والے ہیں کیونکہ اب معیشت اسحٰق ڈار جیسے کسی دھوکہ باز، فراڈیے اور پیسے چرانے والے کے پاس نہیں بلکہ اسد عمر کے محفوظ ہاتھوں میں ہے جو نہ صرف ہر مسئلے کو جانتے ہیں بلکہ ہر مسئلے کا حل بھی نکال سکتے ہیں اور وہ حل ہے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی۔

یہ بھی تاریخی بات ہے کہ ان کے دور میں قومی اسمبلی میں پہلا اور دوسرا منی بجٹ بھی آیا۔ ہر بار بجٹ میں مہنگائی اور قیمتیں بڑھ گئیں، سوال اٹھنے شروع ہوئے۔ ایک سوال جو سب کو یاد تھا، وہ تھا نواز شریف اور زرداری کے دور میں اعداد و شمار کی بنیاد پر ثابت شدہ سینکڑوں ارب ڈالر جو بیرون ملک پڑے ہوئے تھے جن کو واپس لاکر معیشت کو دوبارہ راہ پر ڈالنا تھا۔ آئیں بائیں شائیں سے کام نہ چلا تو ایک دن اسد عمر نے صاف کہہ دیا کہ وہ تو ایک مذاق تھا وگرنہ کوئی ایسی بات نہیں کہ ہمارے روپے کہیں پڑے ہوئے ہیں۔ اس بات کا اقرار کرنے سے کہ پاکستان کی کوئی لوٹی دولت باہر کسی بنک میں پڑی ہوئی نہیں ہے نہ صرف اسد عمر بلکہ عمران خان کی پوری حکومت پر اعتبار جاتا رہا۔

حکومت وقت سے اس کی حمایت کرنے والوں خاص طور پر کابینہ میں شامل ارکان کے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات وابستہ ہوتےہیں جن کے حصول کے لئے وہ سیاست اور حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ سیاسی حکومتیں بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے ان ذاتی دلچسپیوں اور مفادات کی تکمیل میں اس انداز سے ان کی مدد کرتی ہیں کہ اس سے رائے عامہ بھی متاثر نہ ہو اور ان کے حامی بھی مستفید ہوں۔ اسد عمر کو پہلا جھٹکا غالباً اس وقت لگا جب وہ اپنے اہداف اور حکمت عملی لے کر کابینہ کے اجلاس میں بیٹھے جہاں قومی مفاد کے ساتھ گروہی اور ذاتی مفادات کا ٹکراؤ ہوا اور ان کوحمایت نہ مل سکی۔ ان کو پہلی بار پتہ چلا کہ حکومت پر تنقید کرنے اور خود حکومت کرنے میں فرق کیا ہوتا ہے۔

اسد عمر ایک تعلیم یافتہ آدمی ہے جو ساری زندگی ایک کامیاب کاروباری ادارے سے وابستہ رہے ہیں جہاں ان کے اشاروں پر حکومت کی پالیسیاں تبدیل کی جاتی رہی ہیں۔ ان اداروں کو نہ صرف حکومت بلکہ اقوام متحدہ کی طرف غریبوں کو ملنے والی امداد بھی ملتی رہی ہے جو از خود امداد دینے والوں کا ایک جرم ہے۔ امریکی حکومت کی طرف سے مشرف کے دور میں پاکستان میں غربت اور معاشی ترقی کے لئے دی جانے والی امداد کا بہت بڑا حصہ بھی صرف دو کاروباری اداروں کو نصیب ہوا جن میں سے ایک کے ساتھ اسد عمر وابستہ تھے۔  دوسری طرف غیر منافع بخش غیر سرکاری تنظیمیں مفت میں امریکی ایجنٹ ہونے کا داغ چہرے پر سجائے گھومتی ہیں۔

اسد عمر جیسے لوگوں کی کامیاب پیشہ ورانہ زندگی میں ان کی اپنی صلاحیتوں سے زیادہ ان کے اداروں کی چالاکیاں زیادہ کارفرما ہوتی ہیں جس میں وہ دس خرچ کرکے سو کماتے ہیں اور خرچ کرنے والے دس جن کے جیب میں جاتے ہیں وہ ان کے لئے اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کا احتساب بھی ہوتا ہے مگر کمائے گئے سو کا کوئی نہیں پوچھتا، صرف کمانے والے کی تعریف باقی رہتی ہے۔ اسد عمر بھی ان میں سے ایک ہے جنھوں نے اپنے ادارے کے دس روپے خرچ کرکے سو کما کر دیے ہیں اور کامیاب کہلائے ہیں۔

 ایک کاروباری ادارے میں رہتے ہوئے حکومت پر تنقید کرنا، اس کی کوتاہیاں معلوم کرنا اور کمزوریوں سے کھیلنا ایک بات ہے مگر سیاست میں رہتے ہوئے لوگوں کی سننا اور ان کے نبض پر ہاتھ رکھنا دوسری بات ہوتی ہے۔ اسد عمر تو پھر بھی عملی آدمی ہے ، پی ٹی آئی کی ٹیم کے بیشتر ارکان ایسے ہیں جن کو امور مملکت اور عوامی مسائل کی شد بد بھی نہیں۔ ایسے لوگوں کو یہاں تک لانے اور ان پر ہاتھ رکھنے والے ان پر سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں تو لوگ ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین خود کھینچ لیں گے۔

 

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan