باشعور سوسائٹی کیسے تشکیل دی جائے؟


کوئی شخص گنہگار ہے یا بے گناہ؟ اس کے فیصلہ کا اختیار حقوق العباد کی حد تک ملکی قانونی و آئینی عدالتوں کے پاس ہے رہ گئے حقوق اللہ جیسے نماز، روزہ، حج اور دیگر خالصتاً مذہبی فرائض و امور کی ادائیگی کے معاملات ان میں کوتاہی پر فیصلے کا اختیار صرف اور صرف پروردگار عالم کو ہے جو مالک یوم الدین ہے جزا و سزا خالصتاً اُسی کی اتھارٹی ہے۔ زکوۃ چونکہ حقوق العباد سے متعلقہ ٹیکس تھا یا ہے اس لیے اس کی عدم ادائیگی پر قانون یا ریاست کو کارروائی کا حق حاصل ہے جبکہ اس کے بالمقابل کوئی شخص اگر نماز، روزہ اور حج جیسے بنیادی اسلامی فرائض کی ادائیگی نہیں کرتا تو یہ خدا اور بندے کا معا ملہ ہے۔ خدا ئے رحمن رحیم ہماری عبادتوں کا بھوکا نہیں ہے وہ چاہے تو پکڑ کرے اور چاہے تو معاف کردے۔ کوئی ریاست یا ریاست کا کوئی ادارہ یا فرد یا کوئی بڑے سے بڑا مولوی ان معاملات کی عدم ادائیگی پر باز پرس یا تادیب کا قطعی کوئی حق نہیں رکھتا ہے۔

اس چیز کو ہم ایک اور مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کہ شراب اور لحم خنزیر، دونوں چیزیں اسلام میں حرام ہیں بلکہ قرآن میں سور کے گوشت کو شراب سے کہیں زیادہ بڑھ کر زور دیتے ہوئے حرام قرار دیا گیا ہے اس سب کے باوجود اگر کوئی شخص اسلامی سوسائٹی میں لحم خنزیر سے مستفید ہوتا ہے تو اس کے لیے کہیں کسی نوع کی کوئی سزا وارد نہیں ہوئی ہے عہد نبوت و خلافتِ راشدہ سے لے کر ا موی عباسی اور عثمانیہ ادوار تک کہیں ایسی کوئی مثال آپ کو نہیں ملے گی جبکہ خمریا شراب پر کسی نہ کسی نوع کی تادیب تمام ادوار میں کہیں نہ کہیں موجود رہی ہے۔

ہم سب کو غور کرنا چاہیے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ خمر بنیادی طور پر خمار سے ہے جس کا مطلب ہے کہ عقل و شعور کام کرنا چھوڑ دیں۔ اگر کوئی اس ڈرنک کا استعمال کر تا ہے لیکن اس کے عقل و شعور متاثر نہیں ہوتے ہیں تو اس پر بھی کوئی سزا لاگو نہیں کی جا سکتی کیونکہ مسئلہ بالذات مشروب کا نہیں ہے عقل و شعور کا ہے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں ایسے ملزم کے سامنے سفید اور دھبے دار یا میلی چادریں رکھی جاتی تھیں کہ ان کو پہچانو یا آنجناب ؓ ایک لمبی لکیر کھینچ دیتے تھے کہ اس پر چلو اگر وہ صیحح چل جاتا تھا یا چادروں کو پہچان لیتا تھا تواُسے چھوڑ دیا جاتا تھا بری کر دیا جاتا تھا لیکن اگر وہ مدہوش پایا جاتا Drunkenness تو اس کو سزا دی جاتی تھی وجہ اس کی حقوق العباد سے جڑی ہوئی تھی یعنی مدہوشی کی حالت میں وہ کہیں بھی آتے جاتے کسی بھی انسان کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔

یہی مشروب اگر وہ اپنے گھر کے اندر یا چار دیواری میں استعمال کرتا تو ریاست، خلیفہ یا قانون کو کسی کی پرائیویسی میں جھانکنے کی اجازت نہیں تھی حتیٰ کہ اس نوع کا شک پڑنے پر بھی قرآنی حکم ولا تجسَسُو کی تعمیل میں پرائیویسی کا تقدس پائمال کرنے یا جھانکی لگانے کی اجازت نہیں تھی اس کی تفصیل میں سید نا عمر فاروقؓ کا بحیثیت خلیفہ یا حکمران پورا واقعہ بالتفصیل سند کے ساتھ کتب احادیث میں مذکور ہے۔ ہم اختصار کی خاطر چھوڑے دیتے ہیں اور اپنے اصل مدعا پر آتے ہیں۔

اسلام میں انسانی حقوق یا حقوق العباد کی اتنی اہمیت ہے کہ عمر فاروقؓ جیسے آئیڈیل خلیفہ المسلمین کوبھی ان کی خلاف ورزی کا یارا نہیں تھا۔ پیغمبر اسلامؐ کی زندگی کے کتنے زیادہ واقعات ملتے ہیں کہ لوگوں نے طرح طرح کی آپ کے ساتھ زیادتیاں کیں لیکن آپ نے بدلے میں بھی اُن کے ساتھ زیادتی نہیں کی بلاشبہ ہمیں اس کے برعکس روایات بھی کتب احادیث میں ملتی ہیں لیکن قرآن جب انہیں رحمتہ اللعا لمینؑ کا ٹائیٹل دے رہا ہے تو پھر ان باہم متصادم روایات کا جائزہ اس ٹائیٹل رحمتہ اللعا لمین کی روشنی میں ہی لیا جا سکتا ہے اس کے برعکس روایات کو درست مانیں گے تو یہ متذکرہ قرآنی معیار کی کھلی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ قرآن کی اہمیت بہرحال احادیث پر حاوی ہے تو ہم مسلمان کیوں نہ سیرت کے اس پہلو کو قرآنی رہنمائی میں فائق رکھیں کہ ایک یہودی بوڑھی خاتون روز آنجناب پر کوڑا پھینکتی تھی عامتہ المسلمین سے ہمارا یہ سوال ہے کہ اس پر آنجناب ؐ کا ردِعمل کیا تھا؟ اور قرآن ہی ہمیں پابند کر رہا ہے کہ اے مسلمانوں لقد کَان لکُم فِی رسولِ اللہ اَسوۃ الحسنہ۔

رہ گیا یہ سوال کہ تم میں سے جو استطاعت رکھتا ہے وہ بدی کو اپنے ہاتھ سے روکے یا پھر زبان سے روکے اگر اس کی بھی طاقت نہیں ہے تو کم از کم دل میں برا خیال کرے۔ ہمارے لوگوں نے اس ہدایت کو بالعموم غلط طور پر سمجھا ہے اور انفرادی طور پر اس کو بانٹ دیا ہے حالانکہ یہ درجہ بندی تھی استطاعت کے حوالے سے۔ طاقت سے بدی کو روکنے کا اختیار صرف اور صرف ریاست کی اتھارٹی کو حاصل ہے آپ ریاست کی معاونت کر سکتے ہیں مگر آپ اس کو افراد یا گروہوں میں بانٹیں گے تو سوسائٹی میں بدترین انارکی پیدا ہو جائے گی یہی وجہ ہے کہ اسلام میں پرائیوٹ جہاد بمعنی قتال کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ جہاد کے لیے روزِ اول سے سخت ترین شرائط عائد کر دی گئی ہیں اگر کوئی ان میں سے کسی ایک کا بھی خیال نہیں رکھے گا تو وہ جہاد نہیں دہشت گردی کا مرتکب ہوگا۔

اس نقطے کو واضح کرنے کے لیے درویش نے ایک پوری کتاب پیش کر رکھی ہے جس کا نام ہے ”جہاد یا دہشت گردی“؟ تا کہ نسل نوع پر ہر دو اصطلاحات کا فرق واضح ہو سکے۔ لہٰذا طاقت کی استطاعت سے مراد ریاستی یا حکومتی طاقت ہے اس لیے یہ اُسی کا کام ہے کہ اگر کہیں کوئی بدی ہوتی دیکھے تو اسی جبری قوت سے روکے۔ زبان یا الفا ظ سے بدی پر اظہار نفرین کے لیے فی زمانہ میڈیا موجود ہے ماقبل اس نوع کا کام مبلغین کرتے تھے ان دنوں مبلغین نے غیر ذمہ دارانہ رویہ اپناتے ہوئے جو اندھیر نگری مچا رکھی ہے وہ میڈیا سے بھی کہیں آگے تک ہے میڈیا کو تو کہیں نہ کہیں جا کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے جبکہ مبلغین کو کنٹرول کرنا کتنا مشکل ہے اس کا ہمارے ہر فرد کو بخوبی ادراک حاصل ہے۔

رہ گئے عامتہ المسلمین وہ بدی کو کم از کم اپنے دل سے برُا سمجھ لیں تو بڑی بات ہے ورنہ ورغلانے والے انہیں بدی کرنے والوں کی حمایت میں کھڑے کر سکتے ہیں اسی طرح جو یہ کہا گیا ہے کہ تم میں سے ہر کوئی راعی، چرواہا یا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت، بھیڑوں یا زیردستوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس فرمان میں بھی یہ حد بندی مقرر کر دی گئی ہے کہ اپنی استطاعت یا ذمہ داری سے بڑھ کر چھلانگیں مارنے کی کوشش نہ کرو بلاوجہ دوسروں پر خدا بننے کی کوشش مت کرو اپنی حدود و قیور کے اندر رہو وہ بھی محض تادیب کے لیے نہیں حقیقی فرائض یا ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے۔

اب ہم اپنی اصل بات پر آتے ہیں کون گنہگار ہے اور کون بے گناہ؟ اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار خدائی یا مذہبی معاملات میں صرف اور صرف پروردگار عالم کو حاصل ہے جس نے جزا و سزا کے لیے خود جنت اور دوزخ کے تصورات دے رکھے ہیں اور پھر فیصلے کا ایک دن بھی مقرر کر رکھا ہے اگر مسلم سماج کا کوئی فرد اس نوع کی حیثیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو درحقیقت وہ خدائی قدرت یا طاقت کو اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتا ہے جو ازخود شرک اور ناقابلِ معافی جرم ہے باقی رہ گئے انسانی معاملات یا حقوق العباد کے ایشوز ان میں اگر کوئی گنہگار ہے تو اس کے فیصلے کا حق کسی فرد یا گروہ کو سرے سے حاصل نہیں ہے یہ ریاست حکومت یا عدالت کا اختیار ہے۔

اگر کوئی فرد بندوق یا چھرُی پکڑ کر یہ حق یا اختیار اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اُسے قرآن کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے کہ ”جس نے کسی ایک انسان کو ناحق قتل کر دیا اُس نے گویا پوری انسانیت کا ناحق قتل کیا“۔ ہماری ریاست، عدالت اور میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انسانیت کے اس قاتل کو اسی نظر سے دیکھے اور اسی حلیے میں اسے عوام کے سامنے پیش کرے۔ اگر کوئی غیرذمہ دار تنظیم یا گروہ اس حوالے سے ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرتی ہے یا فتنے کی مرتکب ہوتی ہے تو ریاستی طاقت سے ان خارجیوں کا سرکچل دیا جائے اور پورا میڈیا اس کی پشت پر کھڑا نظر آئے۔

میڈیا کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تمامتر فتنہ انگیزی کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے عامتہ الناس کے سامنے ایسے سانحات کی تفصیلات و وجوہات رکھے جنہوں نے ہمارے سماج کو ایسی پستی میں دھکیل دیا ہے کہ لاکھوں ناسمجھ قاتلوں کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردانہ خونریزی کے لیے یہاں بدترین نوعیت کے بلوے ہو جاتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا پردہ چاک کرنا اور سوسائٹی کو عقل و شعور سے بہرہ ور کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).