نیوزی لینڈ میں مسلمان شہید ہوئے اور کوئٹہ میں شیعہ مرے


حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

غالب اگر اس زمانے میں ہوتے تو شاید کبھی ایسی بات نہ کرتے۔ کیونکہ کون سا نوحہ گر ان کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوتا۔ وہ تو ایک دو بم دھماکوں کے بعد ہی ہاتھ جوڑ کر غالب سے معافی تلافی کا خواستگار ہوتا۔ اور کہ دیتا کہ یہ کام اپنے بس کا نہیں۔ یہاں تو ہر قدم پر نوحہ بلند کیا جا رہا ہے۔ نوحہ گر کتنا نوحہ کرے۔ مرثیہ نگار کتنا مرثیہ لکھے۔ یہ ہماری ہمت ہے کہ لاشوں پر لاشے اٹھاتے چلے جا رہے ہیں پر نہ کار سرکار میں کوئی کمی بیشی ہوتی ہے نہ عوام کو کوئی فرق پڑتا ہے۔

فرق پڑتا ہے تو بس اسے جس کا جگر پاش پاش ہوتا ہے۔ جس کا کلیجہ پھٹتا ہے۔ فرق اس ماں کو پڑتا ہے جس کا بچہ پل بھر میں خاک بن کر اڑ جاتا ہے۔ بس فرق اس باپ کو پڑتا ہے جو بیٹے کی لاش کو کندھا دیتا ہے۔ اکثر باپوں کو تو ہم نے اس بوجھ سے بھی ٓزاد کر دیا۔ لاش ملے گی تو کوئی کندھا دے گا نا۔ بم دھماکے کے بعد کون سی لاش۔ کہاں کا کندھا۔ چند ٹکڑے ہی تو سمیٹنے ہیں۔

ہزارہ برادری کے خلاف 2001 سے چلتی نسل کشی کی منظم مہم نے کتنے گھر اجاڑ دیے۔ کتنے سہاگ اجڑ گئے۔ کتنے بچے یتیم ہو گئے۔ کتنی مائیں پامال ہوئیں اور کتنے باپ بیٹوں کی لاشوں کے بوجھ تلے کمر خمیدہ ہو گئے۔ ہمیں اس کا حساب بھی رکھنا نہیں ہے کہ بم دھماکو ں کے ہم عادی ہو گئے ہیں۔

ہم واقعی عجیب قوم ہیں۔ دنیا کو اولی العزمی ہم سے سیکھنا ہو گی۔ حوصلے بلند کیسے رکھے جاتے ہیں ہم سے سیکھنا ہو گا۔ اب تو ہمارے ہاں دھماکے کی خبر ایسے ہی ہے جیسے دو تین دہائیاں پہلے پٹاخوں کی آواز سنائی دے جاتی تھی۔ اب ادھر دھماکہ ہوا ادھر ہم ہنستے کھیلتے چلے جاتے ہیں۔ ٹی وی اپنے پروگرام نہیں بدلتے۔ لہو لہان اور ذلیل و خوار ہوتی انسانیت کے لئے اٹھنا محال جبکہ ریٹنگ کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دینا آسان ہے۔

دو دہائیوں سے اپنے ہی وطن میں کٹ گرتے ہزارہ افراد میں سے کچھ بیرونی دینا میں جا پناہ گزین ہوئے۔ کیا معلوم گذشتہ ماہ نیوزی لینڈ میں شہید ہونے والے مسلمانوں میں کچھ ان ہزاروں سے بھی تعلق رکھتے ہوں۔ وہ خوش قسمت ٹھرے کہ ہم نے ان کا سواگت بطور مسلمان شہید کے کیا۔ ہم سرحد پار کرتے ہی مسلمان ہو جاتے ہیں۔ جبکہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے، شیعہ سنی، وہابی دیوبندی، احمدی، مسیحی، ہندو اور بلوچی سندھی، پنجابی ہزارہ اور پٹھان رہتے ہیں۔

احمدی واہگہ بارڈر کراس کرتے ہی مسلم ہیں اور واپس ادھر قدم رکھتے ہی ذلیل ترین کافر بن جاتے ہیں۔ یہ کیسی مسلمانی ہے یہ کیسا اسلام ہے جو ہمیں سرحدو ں کی تقسیم پر ملتا ہے۔ یہ کیسا کفر ہے جو ایک زمین سے دوسری زمین پر قدم رکھنے سے مسلمانی میں بدل جاتا ہے۔ ایک قدم مسلمان اور دوسرا کافر بن جاتا ہے۔ کیا ہمیں بطور مسلمان مرنے کے لئے باہر جا کر مرنا ہوگا۔

ہم نیوزی لینڈ کے شہید مسلمانوں کے لئے سراپا اجتجاج ہو گئے۔ ہمارے ایمان فلک سے بلند ہونے لگے۔ اسلام، امن شانتی، احترام انسانیت، مسجد کی حرمت، نمازیوں کی شہادت۔ سب ہمیں ایک ہی لمحے میں یاد آگیا۔ ہاں اگر یہ الفاظ ہم پر بھاری پڑتے ہیں اور جن کا بوجھ ہم سہار نہیں سکتے تو وہ ارض پاک پر ہیں۔

یہاں مرنے والا شیعہ سنی احمدی ہندو مسیحی کی سرحد پر مرتا ہے۔ یہاں کٹ گرنے والا پنجابی، سندھی، بلوچی اور ہزارہ ہے۔ ہمارے اپنے اپنے اورمرضی کے شہید ہیں۔ کسی کے افکار کتے کو بھی شہید قرار دینے کے لئے مچلتے ہیں تو کہیں شہید کے ساتھ بھی ننگ انسانیت سلوک کرنے کے لئے ہم مصر ہیں۔

موت تو بہر حال مقدر ہے۔ لیکن نیوزی لینڈ میں مرنے والے ا س لحاظ سے خوش قسمت ٹھہرے کہ ساری قوم نے انہیں شہید مسلمان تسلیم کر لیا۔ ہزارہ کے باسی تو اس سے بھی محروم ہیں۔ وہ یہاں بطور شیعہ ہی مریں گے۔ شاید نیوزی لینڈ والے عادی نہیں ہوئے تھے اور ہم عادی ہو چکے ہیں۔ ان کا تو پہلا کرائسٹ چرچ سانحہ تھا۔ ہمارے گلی کوچوں میں کرائسٹ چرچ پھیلے پڑے ہیں۔ کیا کبھی ہم نیوزی لینڈ جیسا ری ایکشن دے سکیں گے یا نیوزی لینڈ ہم جیسا ہو جائے گا۔ اب تو ہزارہ بزبان حال غالب کے الفاظ میں یہی کہ سکتے ہیں۔ ہر ایک کو پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).