اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجوہات (ڈاکٹر صغرا صدف سے معذرت کے ساتھ)


محترمہ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے کالم میں مذہبی تاریخ کا حوالہ دے کر یہودیوں کاسر زمین فلسطین سے تعلق ثابت کرنے کی بھی کوشش کی اس کا جواب مذہبی تاریخ سے ہی بڑی آسانی کے ساتھ دیا جا سکتا اور میرے لیے یہ آسان ہوتا ہے مگر محترمہ ان تمام دلائل اور وجوہات کے بابت جاننا چاہتی ہیں جن کی بدولت آج کے اس ترقی یافتہ وقت میں ہم جیسے لوگ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں تو بہتر یہی ہے کہ موجودہ دور کے حوالہ جات سے ہی ثابت کیا جائے۔

کسی بھی ریاست کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کو پرکھنے کے لیے اس ریاست کا عالمی قوانین کو لے کر طرز عمل دیکھا جاتا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم ایرل شیرون اقوام متحدہ کے فلور پر کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ وہ ایسے کسی عالمی قانون کو نہیں مانتا جو اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالتا ہو۔ اسرائیلی ریاست اپنے قیام کی طرح آج بھی اپنے غیرقانونی اقدامات کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ 1948 ء سے شروع ہونے والی یہ لاقانیت اور بربریت آج بھی جاری ہے۔

2007 ء سے غزہ کا غیر قانونی محاصرہ جاری ہے جس کو تمام دنیا کے انسانی حقوق کے ادارے غیر انسانی قرار دے چکے ہیں۔ فلسطینیوں کی کثیر تعداد آج بھی پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہے۔ گزشتہ دس سال میں اقوام متحدہ کے کی ڈھیروں ایسی رپورٹس منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں اسرائیل کے اقدامات کو عالمی قوانین سے متصادم قرار دیا جا چکا ہے۔ ابھی کچھ ماہ پہلے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے 109 قانون صریحا عالمی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔

مثلا غزہ کے باسی صرف اور صرف اسرائیل سے بہہ کر آنے والا پانی استعمال کر سکتے ہیں وہ غزہ کی سرزمین پر پانی کے لیے کنواں نہیں کھود سکتے اور سینٹاگو کنٹن ( چیئر مین اقوام متحدہ کمیشن برائے فلسطین اور اسرائیل ) کی رپورٹ کے مطابق اس پانی میں اسرائیل کے گٹروں سے ٖفضلہ شامل ہوتا ہے۔

مغربی کنارے میں چیک پوسٹ پرکسی بھی دس سال سے کم عمر بچے کو روک کر اس کی تلاشی لی جا سکتی ہے اور اگر اس کے ہاتھ میلے نظر آئیں تو اس سے مطلب اخذ کیا جاتا ہے کہ و ہ ضرور کسی اسرئیلی چیک پوسٹ پتھراؤ کر کے آیا ہے اور اس جرم کی کم سے کم سزا 45 سال ہے۔

قالیندیا چیک پوسٹ

اسرئیلی پارلیمنٹ سے پاس شدہ ایک قانون کے مطابق اسرئیلی چیک پوسٹ پر موجود کسی بھی فوجی کو اختیار ہے وہ کسی بھی فلسطینی کو گولی مار سکتا ہے جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ وہ اس پر حملہ کر سکتا ہے۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں ان قوانین کی جن کو عالمی ادارے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کہہ چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیاں تو اس سے الگ ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کسی کو اسرائیل کے غیر قانونی ہونے پر شک ہو تو وہ ان قراداد کی تعداد دیکھ لے جو ہر سال سیکورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جاتی ہیں۔

محترمہ صغرا صاحبہ چاہتی ہیں کہ پاکستان اسرائیل کوایک ریاست کے طورپرجلد سے جلد تسلیم کرے تا کہ وہ اپنے پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جیسا خوبصورت ملک دیکھ سکیں مگر شاید ڈاکٹر صاحبہ نہیں جانتی کہ اسرائیلی پارلیمنٹ سے پاس شدہ ایک قانون کے مطابق اسرائیلی حکومت کسی بھی غیر ملکی سیاح کو تین سال کے لیے اپنے ملک میں صرف شک کی بنیاد پر قید رکھ سکتے ہیں۔ نیو یارک ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق اس قانون کے تحت اسرائیلی جیلوں میں تقریبا تین سو بیالیس غیر ملکی سیاح قید ہیں۔

محترمہ کے بقول فلسطینی پاکستان سے زیادہ بھارت کو اپنے قریب سمجھتے ہیں۔ حکومتی سطع پر ماضی میں کچھ عرصہ کے لیے یہ پالیسی شاید رہی ہو مگر جہاں تک فلسطینی عوام کی بات ہے وہ پاکستان کو اپنا دوست اور برادر ملک سمجھتے ہیں۔ راقم فلسطین کے حو الے سے منعقد ہونے والی لاتعداد عالمی کانفرنسوں میں شامل رہا ہے۔ اور دعویٰ سے کہتا ہے آج تک کوئی ایسا فلسطینی مشاہدہ میں نہیں آیا جو پاکستان سے زیادہ بھارت کو قریب کہتا ہو۔ عرب اور مسلم دنیا کے اسرائیل سے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور ایسا کیوں ہو رہا اس بات کا خلاصہ میں اپنی تحاریرمیں اکثر کرتا رہتا ہوں۔

فلسطینی عوام کے حقوق اور اسرائیلی لاقانونیت کے خلاف مسلم امہ سے زیادہ غیر مسلم لڑ رہے ہیں۔ اسرائیل امریکہ سے ا پنی طاقت ور لابی کو استعمال کر کے یومیہ دس ملین ڈالر امدادکے طور پر لیتا ہے مگر پینٹاگون کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پینسٹھ فیصد امریکی اسرائیل ریاست کو عالمی امن کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ مسلم ممالک کے اندر آج اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور دوسری طرف امریکہ یورپ اور آسٹریلیا کے عوام اسرائیل کے خلاف صف آراہ ہو رہے ہیں۔

بی۔ ڈی۔ ایس بائیکاٹ اسرائیل کی تحریک کسی مسلمان نے شروع نہیں کی بلکہ اس کو شروع کرنے اور چلانے والے امریکی تھے آج اس تحریک میں پوری دنیا سے لوگ شامل ہو رہے میں۔ لندن، نیویارک، جوہانسبرگ اور سڈنی میں ہونے والے اسرائیل مخالف لاکھوں لوگوں کے اجتماع اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا اسرائیل کی حقیقت جان چکی ہے مگر افسوس ہمارے اپنے لوگ اس کھلے سچ سے واقف نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2