اسد عمر کا استعفی۔ باسی خبر پر ترباسی تبصرہ


جس دن اسد عمر کی باقاعدہ یا اعلانیہ رخصتی ہوئی اس دن مکران کوسٹل ہائی وے پر میرے چودہ پنجابی ویر بلوچ علیحدگی پسندوں نے شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کیے تھے۔ خبر کم و بیش ایک ہفتہ پہلے بریک ہو چکی تھی البتہ حکومت کمال ڈھٹائی سے اس کی تردید کررہی تھی۔ میں نے اس پر احتجاجاً کوئی اظہارِ رائے نہیں کیا کیونکہ میری دانست میں وقت کا انتخاب میرے چودہ پنجابی ویروں کی خبر دبانے کے لیے کیا گیا۔ ان کا پہلا قتل بلوچ علیحدگی پسندوں نے اور دوسراخبر دبانے والوں کیا۔

کسی نے یہ نہیں بتایا کہ مرنے والوں کو ان کی پنجابی شناخت چیک کرنے کے بعد مارا گیا۔ گوبر بھرے تھنک ٹینک ہمیشہ مقتول کی شناخت چھپانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ قاتل سینے پھلا کر اپنے حسب نسب کے ساتھ قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ میڈیا مینیجمنٹ کی اس بدترین مثال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب یہ خبر آئی تو یہ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ تھی اور پھر جیسے ہی اسد عمر کی باسی خبرسامنے آئی تو یہ چوتھے پانچویں نمبر سے ہوتے ہوئے غائب ہو گئی۔

خیرآج ویر رؤف کلاسرا نے اسد عمر کی رخصتی کی وجوہات پر بہت خوبصورت اورتفصیلی کالم لکھا۔ شاید اصل مسئلہ مہنگائی ہی تھا جو حد سے زیادہ ہوئی اور اس سے تحریک انصاف کا ووٹر ہی سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ دیگر اہم این اے ایم پی ایز کو بھی آخر عوام کے پاس ہی جانا ہے تو اس بحث سے ہٹ کر کہ ماہرین معاشیات اور ان کی کتابیں کیا کہتی ہیں معیشت کو صرف مینیج کرنے کی ضرورت تھی۔ اسحاق ڈار برا تھا یا اچھا؟ مگر وہ ہوشیاری سے معیشت مینیج کر رہا تھا۔

جس کی وجہ سے ڈالر اور قیمتیں کنٹرول میں تھیں۔ اس سے زیادہ نہ عام آدمی کو معیشت کی سمجھ ہوتی ہے نہ ضرورت۔ اسے دو وقت کی روٹی چاہیے ہوتی ہے جو اسد کے انقلابی اقدامات سے مشکل ہو چکی ہے۔ ویسے بھی مہنگائی سے قومی خزانہ بھرنا کوئی مہارت نہیں یہ کام میں اور آپ بھی سمجھتے ہیں اور کر بھی سکتے ہیں حالانکہ معیشت میں نہ کوئی ہماری مہارت ہے نہ تجربہ۔ میرا خیال ہے اسد عمر ایک اوور ریٹڈ ذہین آدمی ثابت ہوا اور اس کی ذہانت کے چرچے بھی انصافیوں نے ایسے کیے گویا وہ کوئی ایڈم سمتھ تھا۔

بات چیت کرنے کا ڈھنگ اخلاقیات تہذیب یہ سب وہ خوبیاں ہیں جن کا اس وزارت سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔ ریاست بہر حال دکانداری نہیں ہوتی جو عوامی فلاح اور عام آدمی کی روزمرہ زندگی اور معیشت کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جائے۔ یہ جمہوری نظام ہے کوئی بھی فیصلہ جو جمہور کے خلاف ہوگا وہ جمہوری حکومت کو غیر مقبول بھی کرے گا۔ اگر آپ کو مستقبل کی حکمت عملی طے کرنی ہے، کوئی طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنی ہے تو آپ متوسط اور غریب طبقے کو چھیڑے اور مارے بغیر کریں۔ نہیں کر سکتے تو صرف مینجمنٹ کریں جو گزشتہ حکومت بھی کر رہی تھی۔

باقی جہاں نالا پانیاں بھی چائنہ سے امپورٹ ہوتی ہوں وہاں ایکسپورٹ کرنے کو کیا ہوگا اور وہاں روپے کی قدر میں کمی کا کس کو نقصان کس کو فائدہ ہوگا؟ یہ بات بچے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی طویل المیعاد انقلابی منصوبہ بندی کرنی ہے تو ہمالیہ سے گہرے دوست چائنہ کا ماڈل فالو کیوں نہیں کرتے؟ کوئی ایک انڈسٹری ماڈل کے طور پر اس عزت کے ساتھ یہاں قائم کرو کہ اس کا ایک پیچ ایک پرزہ بھی امپورٹ نہیں کرو گے۔

اگر ہیوی مکینیکل کمپلیکس میں ہائی ٹیک میزائل ٹینک اور دیگر اسلحہ بن سکتا ہے تو دیگر مشینری جو کھربوں ڈالرز کی امپورٹ کی جاتی ہے وہ کیوں نہیں بن سکتی؟ اور سب سے اہم اقدام اس ضمن میں یہ کہ ملٹی نیشنل فوڈ چینز (جنک فوڈ والی انڈسٹریز ) کو یہاں سے نکالا جائے جو ہر سال یہاں سے کھربوں روپے باہر لے جاتی ہیں اور جواب میں غیر معیاری فوڈ اور فزی ڈرنکس دے جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایوریج ایج دن بہ دن کم ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس میں پیکنگ والے دودھ مکھن مارجرین اور تیل گھی بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔

جس وقت ہمارے خطے میں یہ سب نہیں تھا لوگ پیسچرائزڈ ملک کی بجائے کھلا دودھ اور کولہو کا نکلا میلا تیل استعمال کر رہے تھے اس وقت یہاں ایوریج ایج سو سال کے اوپر نیچے تھی (اعداد و شمار اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ 1920 میں پاکستانی خطے میں اوسط عمر 21 برس اور 2015 میں 66 برس کے قریب رہی ہے: مدیر)۔ آج ذرا چھوٹے شہروں کا سروے کروا کر دیکھیے لوگ مشکل سے پچاس پچپن کراس کر رہے ہیں۔ اچھے بھلے مڈل کلاس لوگ بھی پچاس سال کی عمر میں سٹنٹ ڈلوا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک صارف کی بچی زہریلی خوراک سے جاں بحق ہو گئی تو اس نے نیسلے کے لیکٹو جن فارمولا دودھ پر ایف آئی آر کٹوا دی۔

جواب میں نیسلے والوں کے وکیل نے عدالت کو بچی کی قبر کشائی کرنے سے روکنے کی درخواست کر دی ( جو بہرحال عدالت نے مسترد کر دی) ۔ جب بچی کے والدین درخواست کر رہے تھے تو نیسنلے کو بچی کی قبر کشائی پر کیا اعتراض یا خوف تھا؟ کیس کا کچھ نہیں ہو سکا، ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہو ئی کیونکہ یہ اتنی بڑی کمپنی ہے کہ جو چھوٹی موٹی ریاست بھی خرید سکتی ہے۔ تو ظاہر ہے نوے پچانوے فیصد کرپشن میں ڈوبے معاشرے میں ان کے لیے کسی محکمے یا اس میں موجود لوگوں کو خریدنا کیا مشکل ہوگا؟ چنانچہ اس ملٹی نیشنل مافیا سے جان چھڑائے بغیر ملکی معیشت کہیں نہیں جانے والی۔

دوسری طرف کار مینوفیکچرنگ کی مقامی صنعت جتنی مرضی کاریں بیچ لے اس کا ملکی معیشت اور عام پاکستانی کو ٹکے کا فائدہ نہیں ہونے والا۔ وجہ صاف ہے کہ آج دو ہزار انیس میں بھی کوئی گاڑی سو فیصد پاکستان میں نہیں بنتی۔ حیرت ہے ہم اپنے ٹینک، جہاز اور میزائل بناتے ہیں مگر گاڑیاں، موٹر سائیکل اور اعلیٰ معیار کی سائیکلیں تک باہر سے منگواتے ہیں۔ تو یہ کون سی معاشی حکمت عملی، منصوبہ بندی یا مہارت ہے کہ آپ پیٹرول گیس بجلی کی قیمتیں بڑھا دیں یا پھر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گھٹا دیں کہ جس کے نتیجے میں پہلے سے بڑھی ہوئی مہنگائی میں مزید سو گنا اضافہ ہو جائے؟

بدقسمتی سے ہمارے ہاں آئی ایم ایف سے مذاکرات کو ہی معاشی مہارت سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ کام ایک عام ڈپلومیٹ یا سیاستدان ایک آدھ اکانومسٹ یا اکاؤنٹ افسر کو ہمراہ رکھ کر بہتر طریقے سے ڈیل کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بطور وزیر خزانہ اسد عمر کی حکمت عملی پہلے دن سے ہی غلط رہی۔ ہمیں اپنے موجود وسائل کو بڑھانے کی ضرورت ہے، ٹیکنالوجی میں خود کفالت کی ضرورت ہے کہ جس سے ہماری درامدات کم سے کم سطح پر لائی جا سکیں۔

پنجاب اور سندھ دونوں ہی اپنی بنیاد میں زرعی صوبے ہیں۔ ہمیں اپنی زراعت سے منسلک فوڈ انڈسٹری لگانے اور کاٹن انڈسٹری بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ قصور شہر جو پاکستان بننے سے پہلے سے چمڑے کی صنعت میں شہرت رکھتا تھا وہاں کے سب کارخانے بند ہو چکے ہیں۔ جانوروں کی کھالیں چائنہ جا رہی ہیں، آپ کس بنیاد پر معاشی پالیسیوں کی بات کرتے ہیں؟ بیچنے کو، ایکسپورٹ کرنے کو پلے ککھ نہیں اور باتیں کی جاتی ہیں معاشی حکمت عملی کی۔

یقیناً یہ کنگلے دماغ آج سے پاکستان کے ان اعلیٰ ترین عہدوں پر قابض نہیں ہیں، ستر سال سے یہی حال ہے۔ بڑے بڑے سیٹھ جو بائیس خاندانوں کا حصہ تھے انھوں نے ان ملٹی نیشنل کمپنیوں سے معاہدے کیے، ان کے کارخانے لگائے، ان کی پراڈکٹ بیچی۔ خود بھی کھایا ان کو بھی کھلایا اور ملک اور مُلکی خزانہ لُٹایا۔ حضور اگر کچھ انقلابی کرنا ہے تو مکمل خود انحصاری کی طرف جائیے، فارن اونویسٹمنٹ سے ملکی خزانہ ایک بار بھر کر تا حیات خالی کروانی کی بجائے اپنے ملک کے تاجر، صنعتکار اور انویسٹر کو فسیلیٹیٹ کیجیے۔

ہر شعبہ میں خود کفالت کیطرف جائیے اورملک و قوم کی جان ان ملکی و بین الاقوامی قزاقوں سے جان چھڑائیے۔ اور اگر یہ سب کرنا آپ کے لیے ممکن نہیں تو پھر انقلابی بن کر عوام کے گلے پر چھری پھیرنے کی بجائے اس ملک کو ویسے ہی چلنے دیں جیسے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ چلا رہی تھیں۔ بیوہ ماں کے اکلوتے احمق بچے والی مثال مت پیش کیجیے کہ جس نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے ماں کی دعا لینے کی بجائے ماں سے کہا کہ ”ماں ماں جے میں تھانیدار بن گیا تے سب توں پہلے تینو ہی تھانے بند کراں گا (ماں میں تھانیدار بن گیا تو سب سے پہلے تجھے ہی تھانے میں بند کروں گا) اور جواب میں ماں نے دکھی لہجے میں کہا پتر اللہ شینت (خدا نہ کرے ) نہ ہوئی۔

دوسری جماعتوں کے کارکنان کے علاوہ اسدد عمر سے کسی کی دشمنی نہیں تھی مگر اسنے جو کام کیے اس کے بعد یقیناً ہر خاص و عام کو اس سے چڑ ہونے لگی تھی۔ سوشل میڈیا پر کم و بیش تین ہزارلوگوں کا ایک پول کروایا اور پوچھا کہ ”ایمانداری سے بتائیں بطور وزیر خزانہ اسحاق ڈار زیادہ ذلیل ہوا یا اسد عمر؟ “۔ اور اُنچاس فیصدلوگوں نے اسد عمر کے حق میں ووٹ دیا۔ اب سازشی مفروضوں کو ذرا ایک طرف رکھ کر خود ہی فیصلہ کر لیجیے کہ اسد عمر کیوں نکلا۔ آخر طاقتور وں کی طاقت بھی نیچے تنخواہ دار طبقہ ہی ہوتا ہے۔ جب اس کا چولھا بھی متاثر ہونے لگے گا تو طاقتور کو ہاتھ کہاں سے ملیں!

عمار شاہ پنجابی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).