بوئنگ 737 میکس جہاز اور اسد عمر


بوئنگ 737 میکس میں نقص یہ تھا کہ اس کی دم پر وزن زیادہ ڈال دیا گیا تھا اور باڈی کے پرانے انجن کی جگہ زیادہ پاور فل انجن لگا دیے گئے تھے۔ نتیجہ وہی نکلا جو آپ نے موٹر سائیکل پر اس وقت محسوس کیا ہو گا جب آپ اچانک زیادہ ریس دے دیتے تھے اور پتہ چلتا تھا کہ اگلا ٹائر ہوا میں بلند ہو گیا ہے اور بعض مرتبہ آپ پیچھے زمین پر پڑے ہوتے تھے۔ یا پھر کسان اس صورت حال کو یاد کر سکتے ہیں جب ٹرالی پر خوب لوڈ ہو اور ٹریکٹر کو چلا دیا جائے تو اس کے دونوں اگلے پہیے ہوا میں بلند ہو جاتے ہیں۔ یا پھر گدھا گاڑی کو یاد کر لیں جب اسے آف لوڈ کرنے کے لئے پیچھے وزن زیادہ کر دیا جاتا ہے تو گاڑی کا انجن یعنی گدھا ہوا میں بلند ہو جاتا ہے۔

بوئنگ 737 میکس کے ساتھ یہی ہوا۔ اب موٹر سائیکل تو ایک قلابازی کھا کر فوراً زمین پر آ جاتی ہے۔ ٹریکٹر بھی دو چار گز چل کر چاروں پہیوں پر چلنے لگتا ہے۔ گدھا بھی بخیر و عافیت زمین پر واپس اتر آتا ہے۔ لیکن جہاز نازک مشین ہے۔ زمین پر غیر فطری طریقے سے اترے تو بے وفا محبوبہ کے عاشق کے دل کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔

جہاز نے یہ حرکت کی تو اب بوئنگ کے انجینئیر سر جوڑ کر بیٹھے کہ کس طرح جہاز کو وہیلی مارنے سے روکا جائے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے ایک سافٹوئیر جہاز میں انسٹال کر دیا اور اس کے ساتھ جہاز کی ناک سے لگے چند سینسر جوڑ دیے جو یہ بتاتے تھے کہ جہاز کی ناک خواہش سے زیادہ بلند ہو گئی ہے۔ جیسے ہی سافٹوئیر کو یہ پتہ چلتا تو وہ پائلٹ کا انتظار کیے بغیر جہاز کی ناک نیچی کر دیتا۔ پائلٹ اگر دوبارہ ناک اونچی کرتا تو سافٹوئیر واپس ناک نیچی کر دیتا اور پائلٹ سے کنٹرول چھین لیتا۔ نتیجہ یہ کہ جہاز کی ناک ایسی نیچی ہوتی کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔ سیدھا زمین بوس ہوتا اور مسافروں سمیت کرچی کرچی ہو کر بکھر جاتا۔

جہاز میں ایسا سوئچ لگا ہوا تھا کہ اسے دبا کر اس بگڑے ہوئے سافٹوئیر کو بند کیا جا سکتا تھا۔ بوئنگ والوں نے پائلٹس کو نہ یہ جہاز چلانے کی ٹھیک سے تربیت دی اور نہ ہی وہ وارننگ سسٹم ہر جہاز میں نصب کیا جو پائلٹ کو بروقت خبردار کرتا کہ جہاز بگڑ گیا ہے۔ بوئنگ والے اس سسٹم کو آپشنل قرار دے کر اس کے الگ سے پیسے مانگتے تھے جو غریب ائیرلائنز دے نہ پاتی تھیں۔

اب اسد عمر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا جیسا بوئنگ 737 میکس کے پائلٹس کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ معیشت کے جہاز کی ناک بلند کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہے لیکن جہاز کو سارے سینسر ایسی غلط فیڈنگ کر رہے تھے کہ اس کی ناک ہی اونچی نہ ہوئی۔ نتیجہ یہ کہ تمام تر مہارت کے باوجود معیشت کا جہاز نیچے سے نیچے گرتا گیا۔

بوئنگ نے بھی پہلے پہل یہی دعوی کیا تھا کہ ہمارے سافٹوئیر میں کوئی خرابی نہیں، پائلٹ ہی نا اہل تھے۔ بعد میں جب دو جہاز گرے تو ثابت ہوا کہ پائلٹ بے قصور تھے، انہیں ٹریننگ ہی نہیں دی گئی تھی کہ بہکے ہوئے جہاز کو سنبھال سکیں۔ اسد عمر بھی بے قصور ہیں کہ انہیں ایسا بگڑا ہوا جہاز تھما دیا گیا تھا لیکن ٹریننگ نہیں دی گئی۔ بوئنگ کے پائلٹ کی طرح اسد عمر بھی بے قصور ہیں۔ ساری غلطی جہاز بنانے والوں کی ہے جو پرانی باڈی میں اسد عمر جیسا پاور فل انجن لگا بیٹھے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar