”جوٹھن“ اور دلت ڈسکورس


مابعد نوآبادیات کے ہندوستانی ڈسکورس میں ”دلت“ کی اصطلاح ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ دلت قدیم نوآبادیاتی، استحصالی و استعماری طاقتوں، برہمن واد اور مذہبی قوتوں کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت کا نام ہے، جو زمین ذادوں کی طرف سے حملہ آوروں استحصالی و استعماری اور مذہبی قوتوں کے خلاف ایک مضبوط آواز کے طور پر سامنے آئی ہے۔

دلت ایک پہچان کا نام ہے، جو ظلم اور برہمن واد کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ دلت کے معنی مظلوم کے ہیں، یہ نام ہندوستان کے اس مظلوم، ذات پات اور طبقاتی تفریق کے نظام میں جکڑے اور استحصالی طبقے کی چیرا دستیوں میں پسے اس مظلوم طبقے نے اپنے لیے خود چناہے۔ اس نام کو اعلٰی ہندو طبقوں نے اپنی ذات اور ناموس پر حملہ قرادیا ہے، ہندوستان کے آئین میں ان کے لیے ”شیڈولڈ کاسٹ“ کا نام چنا گیاہے اور اسی کو استعمال کرنے کی سختی سے تاکید کی گئی ہے۔

دلت وہ طبقہ ہے جسے شودروں سے بھی بدتر اور چوتھی دنیا کہ مخلوق سمجھا جاتا ہے، جانوروں کے سے حقوق بھی ان کو میسر نہیں ہیں۔ اب دلت ایک تحریک کا نام ہے جو مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کی بقا اور حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دلت تحریک جہاں دیگر ذرائع استعمال کرکے اپنے حقوق کی جنگ میں کوشاں ہے، وہیں دلت ادب بھی تخلیق پا رہا ہے۔ دلت ادب کی نمائندہ تحریر ”جوٹھن“ یہ ”اوم پرکاش والمیکی“ کی آپ بیتی ہے۔ جوبرصغیر پاک و ہند میں قائم طبقاتی، استحصالی اور ذات پات کے اس نظام کو بے نقاب کرتی ہے، جس سبب دلتوں کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔

انہیں اچھوت، نجس چوہڑا، راکھشس اور بھنگی ایسے غیر اخلاقی اور غیر انسانی القابات سے نوازا جاتا ہے۔ سماج میں ان کی معاشی حیثیت بد سے بد تر ہے، حقیر اور کم ترین پیشوں کو ان کی پہچان کے طور پر پیش کیاجاتا ہے۔ یہ طبقہ برہمن واد کے استحصال، ظلم وزیادتی کا ہمیشہ شکار رہا ہے۔ ”گاندھی جی“ نے دلت کے حقوق کا مسئلہ اٹھایا، ان کے حق۔ وق کی جنگ بھی لڑی۔ مگر ”ڈاکٹر امبیدکر“ کے نزدیک ”ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور“ کے مصداق، گاندھی جی کا یہ نعرہ صرف ہندو اقلیت میں دلت کو شامل کر کے، ہندو اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کے لیے ہی تھا۔

اسلام جو مساوات کا داعی مذہب ہے ‍، اسلامی معاشرہ بھی دلت کو پورے انسانی حقوق اور شناخت نہ دے سکا۔ دلت وہ طبقہ ہے جو ہندو ”جاتی“ نظام میں سب سے زیادہ تعداد سے دائرہ اسلام میں داخل ہوا، دائرہ اسلام میں شامل ہونے کے بعد بھی انہیں ”مصلی“ ”چوڑھے“، ”بھنگی“، ”کوٹانے“ اور ”دین دار“ ایسے حقارت آمیز اور غیر اخلاقی القابات سے نہ صرف نوازا گیا بلکہ وہی غیر انسانی سلوک جوان کے ساتھ ہندو روا رکھے ہوئے تھے، آج بھی کسی نہ کسی طور جاری ہے۔

اسلامی معاشرے میں بھی، یہ ”جاتی“ سماجی رتبہ پا سکی اور نہ ہی ان کا معاشی اور مذہبی رتبہ بہتر ہوسکا۔ ہندو معاشرے میں شودر یا اچھوت، کمزور معاشی حیثیت کے مسلمان اور دیگر اقلیتیں دلت کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اور دلت کے جدیدوسعت یافتہ ڈسکورس کے مطابق ان تمام کمزور اور استحصال زدہ طبقوں کو دلت میں اگر شمار کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اب ہندوستان میں کم سماجی حیثیت اور رتبے کے مسلمان، ایک نئی دلت کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔

آج دلت ڈسکورس فروغ پا رہا ہے، جس کے تحت خاص طرز کا ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں دلت تحریک زوروں پر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: پاکستان میں بھی کیا اس تحریک کی ضرورت ہے؟ پاکستان میں اقلیتوں کی کیا بات کریں، ہمارے ہاں تو فرقہ واریت کی بنیاد پر دلت کی اصطلاح کو پیچھے چھوڑ کر ایک دوسرے کا قتل و غارت عین ثواب اور مذہبی فریضہ سمجھ کے کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں بھی باہر سے آئے ہوئے حکمرانوں کی باقیات اور اعلٰی طبقے کے افرادکا ہمیشہ کم حیثیت کے مسلمانوں، نو مسلموں اور غیر مسلموں سے دلت کاسا رویہ روا رہا ہے۔

مسلمان معاشرہ بھی چار طبقات میں بٹا ہوا ہے :۔

1۔ وہ باہر سے آنے والے حملہ آور یا حکمران جن کی باقیات آج ہمارے سماج میں سب سے معزز جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔

2۔ اعلٰی طبقے کے ہندو حکمران یا راجے جو مسلمان ہوئے۔

3۔ درمیانے طبقے کے ہندو جو بعد میں مسلمان ہوئے۔

4۔ شودر ہندو یا اچھوت نو مسلم، جو اس دھرتی کے زمین زاد ہیں۔ یہ وہ مقامی بندہ ہے، جو کل کے حملہ آوروں اور آج کے غاصبوں کے ہاتھوں کل بھی اور آج بھی تاراج ہوتا رہا اور اپنے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کردیاگیا، اس طبق۔ ے نے اپنی جڑوں سے جڑ کر تمام تر بے وسائلی میں بھی اپنی بقا کی جنگ لڑی ہے۔ یا وہ اقلیتیں جن کے خلاف مذہب کے نام پر ہم کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں، آج کا دلت ڈسکورس انہی لوگوں کو اپنا موضوع بناتا ہے۔

”جوٹھن“ ایک اچھوت کی داستان حیات ہے، جو ہندو ”جاتی“ کے نظام کی بے رحم چکی میں پس کر بھی اپنی منزل پانے کے لیے کوشاں ہے۔ جس کی ساری زندگی اپنے حقوق اور پہچان منوانے کے حصول کی جنگ لڑنے میں گزری ہے۔ اس معاشرے میں تعلی۔ م بھی اس طبقاتی نظام کو درست کرنے کے بجائے الٹا آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ تعلیم جس کی بنیاد اور مقاصدتک سبھی طبقاتی ہوں، وہ ایسی خرافات کی بت شکن کیوں کر ہوسکتی ہے۔ مصنف کو زندگی کے ہر موڑ پر ان تمام امتیازی رویوں سے نبرد آزما ہونا پڑاجن سے آج بھی ان کی دیگر برادری کا واسطہ ہے۔

وہ گلی محلہ میں اونچی ذات کے ہم جولیوں اور تعلیم اداروں میں اونچی ذات کے اساتذہ کے ظلم و بربریت کا ہمیشہ نشانہ بنتا رہا۔ تعلیم میں اچھا ہونے کے باوجود بھی اساتذہ اس کی ”جاتی“ کی بنا پر علم کے دروازے اس پر وا کرنے پر راضی نہ تھے۔ اس سب کے لیے اس کا گنا اس کی کم تر ”جاتی“ تھی، جو ناقابل معافی گناہ تھا، جو اس نے خود نہیں کیا، قدرت کی طرف سے اسے ودیعت ہوا تھا اور اس نے اپنی آنکھ ایک اچھوت گھرانے میں کھولی تھی۔

جسے قدرت نے اسے چھوت کے گھر میں بھیجنے سے معاف نہ رکھا اسے یہ سماج کیوں کر معاف کرسکتاہے۔ علمی اور عملی زندگی کے ہر میدان میں ذات پات کے اس ناسور نے ان کی کہیں بھی جان بخشی نہ کی، پہلے تو احساس کمتری کی بنا پر کئی جگہ انہیں اپنی پہچان چھپانی بھی پڑی، جب مصنف نے محنت سے اپنا مقام پالیا تو پھر انہوں نے خاصے اہتمام اور فخر سے اپنے نام کے ساتھ ”والمیکی“ کا لاحقہ لگانا شروع کیا، تاکہ ان کی ”جاتی“ کے دیگر لوگوں میں آگے بڑھنے کا شوق، ولولہ اور جذبہ پیدا ہو اور اس بھیانک نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی جرات کرسکیں۔

یہ مصنف کی پرخار حیات کی لرزہ خیز داستان ہے، جس میں مصنف کی زندگی اور برہمن واد کے درمیان ہمیشہ سے چلا آرہا ایک جدلیاتی رشتہ قائم ہے، جس سے انہوں نے خوب مقابلہ کیا اورکبھی بھی ہار نہیں مانی۔ ”جوٹھن“ نوآبادیاتی طاقتوں، استحصالی قوتوں، برہمن واد اور طبقاتی ٹیبوز کی ردتشکیل کرتی ہے۔ جس کے آخر میں مصنف نے کئی فکر انگیز سوالات اٹھائے ہیں۔

”پیدا ہونا فرد کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا تو میں بھنگی کے گھر کیوں پیدا ہوتا؟ جو خود کو اس دیس کی عظیم روایات کے نام نہاد علمبردار کہتے ہیں، کیا وہ اپنی مرضی سے ان گھروں میں پیدا ہوئے ہیں؟ “

(جوٹھن ص‌۔ 168 )

”جوٹھن“ کا، شیراز حسن نے ہندی سے اردو ترجمہ کیا ہے اور ”آج کی کتابیں“ سٹی بک پریس کراچی سے یہ آپ بیتی شائع ہوئی ہے۔ ہر باشعور قاری کے پڑھنے لائق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).