سنگ تراش کی بے بسی


ضبط کے سمندر میں ہچکولے کھاتی ہوئی خیال کی کشتی کا نصیب کبھی کبھار اظہار کا ساحل بھی ٹہر جاتا ہے۔ جس حرف نے صوت و قرطاس کا لباس زیب تن کرنا ہو اسے مٹایا نہیں جاسکتا۔ ہم نہیں تو آپ، آپ نہیں تو کوئی اور، لیکن وہ حرف لکھا ضرور جائے گا۔ حرف وہ موسیٰ ہے جس کی پیدائش کو روکنے کے لئے ہزاروں بچے قتل کر دیے گئے لیکن وہ حرف اپنے مٹانے والے کی آغوش میں سانس لے رہا تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا، کوہ ِطور کی بجلی کو دیکھنے والی آنکھوں کی بینائی دیدار کی فرمائش سے بھی پہلے کیسے سلب کی جا سکتی ہے۔ ابھی تو فرمائش دید کی بھی گھڑی نہیں آئی۔ پھر انکار کی گھڑی نے آنا ہے۔ پھر مشتاق نگاہوں پہ ترس کھا کر چٹان پر دیدار کی تجلّی نے آنا ہے

اُس کے بعد اِن گستاخ آنکھوں پہ جو گزرے سو گزرے، لیکن یہ کون سپاہی ہیں جو اِن آنکھوں کو ماں کی آغوش میں ہی بجھا دینے پر کمربستہ و مامور۔ اِن سپاہیوں کو اِن نومولودوں پر ترس آیا کہ نہیں یا بعد میں کسی سپاہی نے اعتراف جُرم پر مبنی کوئی کتاب لکھی کہ نہیں، یہ بے معنی بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آج اِن کی محنتوں اور کوششوں پرہمیں کتنا ترس آ رہا ہے۔ ان کی کوششیں کتنی رائیگاں گئیں۔ ان سپاہیوں کو مطلوب بچہ ان کی خون آلود تلواروں سے کہیں دور صندوق میں بند تیرتا ہوا آ رہا تھا۔ بادشاہ وقت ماؤں سے ان کے سگے بیٹے چھین کر مار رہا تھا۔ لیکن خاتونِ اول سے ایک پرایا اور بے شناخت بچہ لے کر قتل نہ کروا سکا، کیوں؟ اس لیے کہ اس بے شناخت بچے کی زبان پر کسی حرف کی امانت کا بوجھ تھا اور بوجھ بھلا کوئی کب تک اٹھاتا پھرے۔ ایک نہ ایک دن تو اتار ہی دینا ہے۔ ۔

موسیٰ کے شبے میں جو نومولود مار دیے گئے وہ شہید ضرور تھے لیکن ان میں کوئی بھی امینِ حرف نہ تھا۔ اگر ہوتا تو یوں نہ مارا جاتا۔ جاننا چاہیے کہ جس حرف نے کائنات کی پہنائیوں میں گونجنا ہے اُسے گونجنے سے پہلے خاموش نہیں کیا جا سکتا۔ بانس کے درخت کو بے شک آتش دان میں استعمال کر لیں لیکن اُس شاخ کو آگ کیسے لگائی جا سکتی ہے جس نے بانسری بن کرچرواہے کی سانسوں کو نغموں کا روپ دینا ہے۔

حرفِ حق کسی نطق ِخاص یا نوک ِقلم کادریوزہ گر نہیں۔ جنون اپنے گریبان ڈھونڈھ لیتا ہے۔ فصل ِگل کی آمد کو روکنا خزاں گزیدہ پتوں کی دسترس سے باہر کی بات ہے۔ صبح طلوع ہوگی یا نہیں، یہ فیصلے اُلوؤں اور چمگادڑوں کے ہاتھ میں ہرگز نہیں۔ روشنیوں سے نفرت اور اندھیروں سے محبّت کرنے والے صبح کے مالک نہیں بن سکتے۔ نئی صبح تو اِن چمگادڑوں کو الٹا لٹکانے والی ہے۔ ہم اسیرانِ قفس سحر و شب کی تفہیم سے عاجز ہیں۔ ہم اندھیروں میں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ابھی ہم صبح کا شعور نہیں رکھتے۔ کوئی ہے جو ہمیں صبح کا یقین دلا دے۔

یہ غم جو رات نے دیا ہے یہ غم سحر کا یقین بنا ہے

یقین جو غم سے کریم تر ہے سحر جو شب سے عظیم تر ہے

ہمارے آئین میں درج ہے کہ حاکمیت خدا کی ہے لیکن حضور ہم تو بتوں کی پرستش میں جیون بتا آئے ہیں۔ اب بقولِ میر آخری عمر میں کیا خاک مسلمان ہوں گے۔ ابھی ہم خدا کی حاکمیت کی منزل پر نہیں پہنچے۔ خدا نے کب کہا ہے کہ مخلوق کو غلام بنا کر رکھو، ظلم کا سودا بیچتے رہو، اختلافِ عقیدہ پر کسی کی گردن اُڑا دو، کسی کی رائے پر پہرا دیتے رہو، سڑک کے کنارے دن دیہاڑے بچوں کے سامنے اُن کے ماں باپ کو گولیوں سے بھون ڈالو، یہ سب خدا نے تو نہیں کہا۔ اگر یہ سب کچھ خدا نے نہیں کہا تو یہ کون ہے جو یہ سب کچھ کرنے کا کہہ رہا ہے۔ یعنی اصل مسئلہ خدا کا نہیں بت کا ہے۔ اگر وہ خدا نہیں تو کیا ہم کسی بت کی حاکمیت میں جی رہے ہیں۔

ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے

جہاں میں کی ہیں بتوں نے خدائیاں کیا کیا

چین کے ایک شاعر نے کہا تھا کہ ”تمہارے شاہی فرمان کی رُو سے ہو سکتا ہے میں بیس سال تک سورج کی روشنی نہ دیکھ سکوں لیکن تمہارا یہ نظام جو بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنی موت کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا بیس سال تک زندہ رہ سکتا ہے؟ “

جاننا چاہیے کہ مبارک ہاتھ سے مبارک قلم کے ساتھ مبارک لوح پر جو مبارک حرف لکھ دیا جائے وہ کسی نا مبارک ہاتھ سے مٹایا نہیں جاسکتا۔

ہمارا ایوان ایک قانون پاس کرتا ہے کہ عدالت سے نا اہل شخص پارٹی صدر بن سکتا ہے لیکن ثاقب نثار فیصلہ فرما دیتے ہیں کہ ”نا اہل بادشاہ گر نہیں بن سکتا۔ “ کیا یہ آئین کو معطل کر دینے کا عمل نہیں ہے؟ کیا آرٹیکل 6 اِسی قضیے کا نام نہیں ہے؟ کیا آرٹیکل 6 کے مطالعے کے دوران نثار جی کو اپنی تصویر نظر آئی کہ نہیں؟ ہر چند کہ عدالت نے قرار دیا کہ نا اہل شخص بادشاہ گر نہیں بن سکتا لیکن ابھی اِس فرمان کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں اُتری تھی کہ ایک نا اہل ترین صاحب کے ہاتھوں نئے پاکستان کے بادشاہ کی تاج پوشی کے لئے اُڑن کٹھولے میں ہیرے موتی نیلم، پکھراج اور کوہ ِنور بھر بھر کر لائے گئے حتیٰ کے چار ہیرے اضافی قرار پائے۔

( بقولِ وجاہت مسعود ”ایزاد“ قرار پائے ) ۔ دستِ سنگ تراش کسی بُت کے نین نقشے اور نوک پلک سنوارنے میں دن رات مگن رہتے ہیں۔ تب کہیں جا کر شاہکار بت تخلیق پاتے ہیں۔ اِن بتوں کا حسن آنکھوں کی جنبش کو ساکت کر دیتا ہے۔ عقل ماؤف کر کے جنون کا گریبان چاک کر دیتا ہے۔ جبین ِنیاز خم ہونے کو تڑپنے لگتی ہے۔ پھر ان بتوں کی پوجا پاٹ ریاست کا بیانیہ ٹھہر جاتا ہے۔ جس نے سجدہ کیا وہ مقبول اور جس نے انکار کیا وہ مردود۔

لیکن سنگ تراش تمام تر کاریگری اور کمال ِفن کی یکتائی کے باوجود ایک خاص مقام پر بے بس ہو جاتے ہیں، عاجز و لاچار، کون سا مقام؟

آئیے فقیر کی غزل کے ایک شعر میں سنگ تراش کی بے بسی والی تصویر ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پجاری کس کو ملے اور بت شکن کس کو

بتوں کا بخت کہاں دست ِسنگ تراش میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).