اکبر معصوم کی موت: اردو شاعری کے ایک عہد کا اختتام


بس خواب بیچتا ہوں بناتا نہیں ہوں میں

لیکن یہ بات سب کو بتاتا نہیں ہوں میں

دُنیا سے مجھ کو اِتنی محبت ضرور ہے

بارش میں بھیگتا ہوں، نہاتا نہیں ہوں میں

اب تیرا کھیل، کھیل رہا ہوں میں اپنے ساتھ

خود کو پکارتا ہوں اور آتا نہیں ہوں میں

(اکبر معصوم)

دوستو غضب ہو گیا۔ اکبر معصوم ہم میں نہیں رہے۔ آپ میں سے اکثر لوگ شاید اکبر معصوم کے نام سے بھی واقف نہ ہوں گے۔ قصور آپ کا بھی نہیں ہے، ہمارے ادبی حلقوں اور شعراء نے شاعری کو جس طرح پرفارمنگ آرٹ میں تبدیل کیا ہے اس کے بعد صرف سٹیج پر آکر کرتب دکھا کر داد لینے والے شعراء کو ہی پذیرائی ملنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ سنجیدہ، کم گو اور مشاعروں سے دور رہنے والے شعراء چاہے کس قدر ہی غضب کی شاعری کریں، انہیں آج کے دور میں کبھی پذیرائی نہیں مل سکتی۔

ایسے ہی ایک نابغہ روزگار شاعر جناب اکبر معصوم تھے جنہوں نے ساری زندگی ایک موذی مرض سے لڑتے ہوئے اور ادبی کسمپرسی کے دور میں اعلی اور معیاری شاعری کرتے ہوئے سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر سانگھڑ میں گزار دی۔ اگر ان کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ہے کوئی شاعر ہو جو ان کے اسلوب، جدتِ خیال اور جداگانہ انداز کے آگے ٹھہر سکے۔ ان کے دو شعری مجموعے ”اور کہاں تک جانا ہے“ اور ”بے ساختہ“ اردو غزل کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ان کا ایک ایک شعر تجربے اور تخیل کی کسوٹی پہ پرکھ کر صفحہ قرطاس پر آیا ہے اور ان کے اشعار میں جو فنی پختگی ہے اس سے ان کی بھرپور ریاضت کا اندازہ ہوتا ہے۔ شعر دیکھیے

کر رہا ہوں ایک پھول پہ کام

روز اک پنکھڑی بناتا ہوں

مجھ سے شکوہ تو ایسے کرتے ہو

جیسے میں زندگی بناتا ہوں

اکبر معصوم جدید اردو غزل کے اہم ترین اور جداگانہ طرز کے شاعر تھے۔ بعض شعراء ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس حوالے کے طور پر محض چند اشعار یا غزلیں ہوتی ہیں جو وہ ہر مشاعرے میں سنا کر داد سمیٹتے ہیں اور یہی کلام ان کو زندہ رکھتا ہے مگر اکبر معصوم پر اس معاملے میں ربِ سخن کی بہت عنایت ہے۔ ان کی ہر غزل کا ہر ہر شعر اپنے اندر معانی و مفاہیم کا سمندر لیے ہوئے ہے۔ ان کے ہاں زندگی کی رعنائیوں کا بیان بھی ہے اور اذیتوں اور مصیبتوں کا گلہ بھی۔

وہ بیک وقت مختلف محاذوں پر ڈٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور ایک ہی غزل میں مضامین کا ایسا شاندار تنوع لاتے ہیں جو پڑھنے والے کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیتا ہے۔ اکبر معصوم کی شعری صلاحیتوں کا اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ جدید اردو غزل کے امام سمجھے جانے والے ظفر اقبال انہیں یوں یاد کرتے ہیں ”اکبر معصوم، مجھ سے آگے نکل جانے والوں میں سے ایک“۔ دو اشعار پڑھیے اور خود ہی اندازہ لگائیے اکبر معصوم شاعری میں کس مقام پر کھڑے ہیں

نیند میں گنگنا رہا ہوں میں

خواب کی دھن بنا رہا ہوں میں

ایسا مردہ تھا میں کہ جینے کے

خوف میں مبتلا رہا ہوں میں

گویا ان کی قابلیت اور شعری صلاحیت کا ہر کوئی معترف ہے مگر مقامِ افسوس یہ ہے کہ اس سب کے باوجود وہ ایک معمولی زندگی گزار کے 7 اپریل کو سانگھڑ میں انتقال کرگئے اور ادبی پنڈتوں کی جانب سے محض چند تعزیتی جملوں کے سوا کچھ نہ کیا گیا۔ ان کے شایان شان تو دور ان کی یاد میں کوئی معمولی تعزیتی ریفرنس تک نہیں کروایا گیا جو کہ ادبی حلقوں کے لیے شرمندگی کا مقام ہے۔ سنجیدہ اور معیاری شعراء کے ساتھ یہی ہوتا رہا تو شاعری محض ڈرامہ بازیوں تک محدود ہو کر رہ جائے گی اور ہمارا ادب کتابوں سے نکل کر ٹک ٹوک اور یوٹیوب کی بھول بھلیوں میں گم ہوجائے گا۔ اکبر معصوم جیسے لوگوں کی پذیرائی کرکے ہم ان پر کوئی احسان نہیں کریں گے بلکہ یہ اردو شاعری پر احسان ہوگا کیونکہ جب تک ایسے شعراء ہیں تب تک ہم اردو شاعری کا تعارف فخر سے کروا سکتے ہیں۔ اکبر صاحب خود ہی کہہ گئے ہیں۔

رہ جائے گی یہ ساری کہانی یہیں دھری

اِک روز جب میں اپنے فسانے میں جاؤں گا

یہ صبح و شام یونہی رہیں گے مرے چراغ

بس میں تُجھے جلانے بجھانے میں جاؤں گا

اٹھاون سال کی عمر میں ہم سے اٹھ جانے والے اکبر معصوم اپنی معیاری شاعری کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے اور ان کے خوبصورت اشعار ہمیشہ قارئین کی روحوں کو شاداب کرتے رہیں گے۔ معذوری کے باوجود انہوں نے جس جواں مردی سے زندگی اور ادب دونوں میدانوں میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ وہ خود ہی کہہ گئے ہیں

ہم کو ایک زمانے تک

روئیں گے ویرانے تک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).