کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟


کوئٹہ کے ہزار گنجی علاقے میں ہونے والے سانحے کو ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ کوسٹل ہائی وے پہ گاڑیاں روک کر، شناخت کر کے مسافروں کو قتل کیا گیا۔ یہ قتل بھی بظاہر قومیت کی بنیاد پہ کیے گئے۔ قاتل کون ہیں؟

اس کے بارے میں شاہ محمود قریشی نے اشارہ کیا ہے۔ ٹھیک ہے، ادھر دیکھ لیتے ہیں۔ مگر مرنے والے انسان تھے، یہ سوچنے سے کیسے باز رہیں؟

ایک طرف یہ قتل وغارت گری جاری ہے اور دوسری طرف مہنگائی کا جن دانت نکوسے بازاروں میں دوڑتا پھر رہا ہے۔’
ساتھ ساتھ کابینہ میں وزرا تبدیل ہونے شروع ہو گئے۔ اسد عمر کی رخصتی بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے۔ ایسے سوالیہ نشان تاریخ کی پراسرار کڑیوں کو آپس میں جوڑ دیتے ہیں۔

یوں بھی نئے آنے والے کئی جوابات ان گنت سرگوشیوں کو جنم دے چکے ہیں۔ اصل میں یہ نئے چہرے بھی کچھ زیادہ نئے نہیں۔

عوام کا یہ ہے کہ صبح اٹھتے ہیں اور اس دن کی روزی روٹی کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ رات ہوتی ہے تو تھک کر سو جاتے ہیں۔ ایسے میں بعض اوقات وہ کچھ چہروں کا ماضی بھلا دیتے ہیں۔

ماضی بھلایا تو جا سکتا ہے، مٹایا نہیں جا سکتا۔ شطرنج کا کھیل پاکستان میں ایک مقبول کھیل ہے۔

مصنف پریم چند کا شاہکار افسانہ ‘شطرنج کے کھلاڑی’ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کھیل کے چاہنے والوں کو جب ایک بار اس کی لت لگ جائے تو پھر، چھٹتی نہیں ہے، منہ سے یہ کافر لگی ہوئی ہے۔

شطرنج کی بساط بسا اوقات چوبی ہوتی ہے اور مہرے بے جان۔

ایسے ہی کسی مہرے کو گھوڑا سمجھ کے ڈھائی گھر کی چال چلا دی جاتی ہے۔ کسی کو شتر اور کسی کو اسپ کہہ دیا جاتا ہے۔ بادشاہ، بے چارہ بے اختیار سا، ایک دو گھر ٹہل سکتا ہے۔

وزیرِ داخلہ، معاف کیجیے گا، شطرنج کا وزیر ہی پوری بساط پہ ترت پھرت، جنگ کرتا پھرتا ہے۔

پیادوں کا کیا؟ مر گئے تو مر گئے۔ بچ گئے تو جس مہرے کے خانے تک پہنچ جائیں گے وہی مہرہ بن جائیں گے۔ اب بھلا ایسے دلچسپ کھیل کی لت کیوں نہ لگے؟

شطرنج کے کھلاڑی اس کھیل کے پیچھے گھر بار، ہوش و حواس، بیوی بچے سب تج کے بساط پہ نظریں جمائے بیٹھے رہتے ہیں۔

بساط جمانا، چال چلنا اور ایک کے بعد ایک چال چلنا، مخالف کو شہ دینا، کبھی خود زد پہ آنا اور شہ بچانا، یہ سب کرتے ہوئے کون اکتائے گا؟

اسی لیے شطرنج کے کھلاڑی دین ودنیا بھلا کے اس میں غرق ہو جاتے ہیں۔ پریم چند کے افسانے میں بس ہوا یہ کہ کھیلنے والے کھیلتے رہے اور زمانے نے ان کے سچ مچ کے بادشاہ کی بساط لپیٹ لپاٹ کر رکھ دی۔

زمانہ بہت ظالم ہے۔ شطرنج کے کھلاڑیوں سے بھی زیادہ بے رحم اور زندگی کوئی شطرنج نہیں۔

قوموں کی زندگیاں نہ کھیل ہوتی ہیں اور نہ ہی کسی کھیل کی نذر ہونی چاہیے۔

پاکستان

وفاقی کابینہ میں ہونے والی تبدیلیوں میں سب سے پہلے وزیر خزانہ اسد عمر کا نام سامنے آیا جنھوں نے اپنی وزارت چھوڑ دی

وزیر اعظم اپنی کابینہ میں ردو بدل کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔ خواہش بھی یہ ہی ہے اور امید بھی یہ کہ یہ تبدیلیاں مثبت ہوں لیکن نئے آنے والوں کے ساتھ ان کے ماضی کے بھیانک سائے ہیں۔

واقعات بہت تیزی سے رونما ہو رہے ہیں۔ کبھی صدارتی نظام کی آواز پڑتی ہے تو کبھی الماری سے کوئی اور ڈھانچہ برآمد ہوتا ہے۔

حکومت بنے آٹھ ماہ کا وقت گزرا ہے۔ چونکہ الیکشن بھی بے حد شفاف ہوئے تھے اور اس کے بعد تو ہر معاملے میں اتنی ‘شفافیت ‘ برتی جا رہی ہے کہ سب نظر آ رہا ہے۔ خیر وہ تو پروا بھی کسی کو نہیں، دیکھنے والے خود ہی نظریں کیوں نہیں جھکا لیتے؟

یوں ہی پروین شاکر کی ایک نظم کی چند سطریں یاد آ گئیں، چلتے چلتے آپ بھی سن لیجیے۔

شیر بے چارہ ۔۔۔ بھلا امورِ مملکت سے اس کو کب فرصت
ابھی انکار کا پہلا حرف ہی کہہ پایا تھا
تینوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا

اور جناب والا ہی کو داؤ پہ رکھ کے کھیل دیا
ہار جیت کے فیصلے سے پہلے ہی

بساطِ خونی پر سے
فیل، پیادے، شاہ، وزیر سب ہٹے ہوئے تھے
شیر کے ٹکڑے، خانہ خانہ، بٹے ہوئے تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).