جیسنڈا کا سیکولرازم اپنانے میں ہمیں عار کیوں ہے؟


ہم تمام پاکستانیوں کا ماننا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انسانیت کے لئے خطرہ ہیں کیونکہ وہ ایک دائیں بازو کے (عیسائئ) نظریات رکھتے ہیں ں۔ ہ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی انسانیت کے لئے خطرہ ہیں کیونکہ وہ ایک دائیں بازو کے (ہندو) نظریات رکھتے ہیں اسرائیل کے صدر ریولن انسانیت کے لئے خطرہ ہیں کیونکہ وہ ایک دائیں بازو کے (یہودی) نظریات رکھتے ہیں۔ تاہم ہم تمام پاکستانیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن ایک انسانیت دوست، عظیم، اور قابل فخر شخصیت ہیں۔

آخر جیسنڈا آرڈن اور ٹرمپ، مودی، ریولن کے درمیان کیا فرق ہے۔ فرق بہت صاف اور سیدھا ہے۔ جیسنڈا آرڈن دائیں بازو کے نظریات کو رد کرتی ہیں اور دائیں بازو کے نظریات کی مخالف ایک لبرل و سیکیولر شخصیت ہیں۔ اگر سیکیولر و لبرل ہونا انسانیت دوست آور قابل فخر ہے تو ہم پاکستانی کیوں دائیں بازو کے قدامت پسند اور منافرانہ نظریات پر عمل پیرا ہیں؟ کیا ہمارے ہاں دائیں بازو کے تنگ نظر مذہبی نظریات انسانیت کے اتنا ہی بڑا خطرہ نہیں جتنے دائیں بازو سے وابستہ تنگ نظر عیسائی، یہودی یا ہندو نظریات ہیں۔

؟ کیوں ہمارے معاشرے میں سیکیولرازم قابل قبول نہیں ہے۔ ہم خود کیوں ایک لبرل وسیکولر مسلمان بننے سے خوفزدہ ہیں۔ ہمیں نیوزی لینڈ کی سیکیولر لیڈر اور ریاست پر ٹوٹ کر پیار آرہا ہے (یقیناً آنا بھی چاہیے) جہاں صرف ایک فیصد مسلمانوں کے لئے، ریاست، عوام اور عوامی قیادت پوری قوت، عزم اور حوصلے کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہے۔ لیکن ہم نے خود اپنے معاشرے میں اقلیت کی تو بات چھوڑیں، ان کے لئے اٹھنے والی ہر آواز تک کے لئے زمین تنگ کر رکھی ہے۔

ہم ہر وہ حق اور رعایت جن کی ہم دوسرے معاشروں اور ممالک میں اپنی ذات کے لئے طلبگار ہیں اپنے ملک میں دوسروں کو دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بلکہ ہمارے مذہبی سوداگر پاکستان تو کیا، ایران، افغانستان، عراق، سعودی عرب، شام، لبنان، ترکی سمیت کسی بھی مسلمان ملک کو سیکیولر ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ انسانیت کے وسیع تر مفاد میں دنیا بھر کے عیسائئی، یہودی اور ہندو دائیں بازو کے نظریات ترک کردیں اور جیسنڈا جیسے سیکیولر بن جائیں لیکن ہم اپنے ملک اور معاشرے میں جیسنڈا جیسی سیکیولر شخصیات کو برداشت تک نہیں کرتے۔

کیوں ہم ایک ہی نظریہ پر یقین رکھنے والی جیسنڈا اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ الگ الگ بلکہ متضاد برتاؤ کرتے ہیں۔ کیوں ہمارے صحافیوں کو امریکی اور بھارتی ریاستوں کی انسان دشمن پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتے نوم چومسکی اور ارون دھتی رائے تو قبول ہیں لیکن اسی راستے کے مسافر ڈاکٹر مبارک اور پرویز علی ہود بھائی ناقابل برداشت ہیں۔ آخر یہ مسخرہ پن کیوں؟ آخریہ مجرمانہ دوغلا پن کیوں؟ کیوں ہمارے معاشرے میں مذہبی بونے اپنی دکان چمکانے لئے سیکیولرازم نامنظور کے نعرے بلند کرتے ہیں؟

بحیثیت قوم اب ہمیں اس نکتہ پر متفق ہو جانا چاہیے کہ ہر وہ ریاست، ہر وہ گروہ، ہر وہ شخص دہشت گرد ہے جو نسلی و مذہبی بنیادوں پر نفرت و تعصب کرتا اور پھیلاتا ہے۔ اپنے دل و دماغ سے ہر اس خیال کو باہر نکال پھینکیں جو آپ کو دوسری قوموں اور مذاہب سے نفرت کی ترغیب دیتا ہے۔ ہر اس نام نہاد مذہبی لیکن درحقیقت نفرتوں کے سوداگر کو اپنی صف سے نکال باہر کریں یا اس کی صف سے نکل جائیں جو انسانوں میں تفریق کرتا ہے۔

ایک اچھا مسلمان بننے کی لئے دوسرے مذاہب سے نفرت کرنا ضروری نہیں۔ ایک محب وطن ہونے کے لئے دوسری قوموں سے نفرت کرنا ضروری نہیں۔ نفرت چاہے انفرادی طور پر کی جائے یا گروہی و قومی سطح پر، انسان کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ انسان کے شعورکو جانور کی سطح پر لے آتی ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں منزل چننی ہوگی کہ ایک راستہ۔ امن، سلامتی اور انسانیت کی طرف اور دوسرا راستہ وحشت، تشدد اور انسان دشمنی کی طرف جاتا ہے۔ ایک طرف جناح، گاندھی اور جیسنڈا ہیں اور دوسری طرف ٹرمپ، مودی اور بن لادن۔ آپ کے سامنے دونوں راستے ہیں اور فیصلہ بھی آپ ہی کا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).