’’سکندر بخار، وادیٔ کالاش اور یونانی دواخانے‘‘


چنانچہ ہم جیسے عام لوگوں تک وہی تاریخ پہنچتی ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں درباری خوشامدیوں سے لکھوائی جاتی ہے…اور اس تاریخ میں صرف بادشاہ کی بے مثال فتوحات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ مجال ہے کسی ایک شکست کا بھی ذکر ہو۔ اس طرح سکندر اعظم اور پورس کے درمیان جو جنگ ہوئی اسے لکھنے اور بیان کرنے والے وہ تاریخ نویس تھے جو سکندر کی مہم میں اس کے ساتھ آئے تھے۔

وہ کیسے تحریر کر سکتے تھے کہ ہندوستان میں داخل ہوتے ہی سکندر کو پورس ایسی بلا کا سامنا کرنا پڑا اور وہ شاید پہلی بار شکست سے دوچار ہوا۔ اس کی شکست کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جنگ کے فوراً بعد اس کی سپاہ نے بغاوت کر دی اور ہندوستان میں مزید پیش قدمی سے انکار کر دیا۔

وہ خوفزدہ ہو گئے کہ اس ملک میں داخل ہوتے ہی ہمارے سامنے نڈر اور جری پورس ایسے سپہ سالار کا سامنا ہو گیا ہے۔ اس کے جنگی ہاتھیوں نے اپنی فوج کو نہیں ان کی یونانی فوج کو روند ڈالا ہے تو اگر ہم اس ملک کے مزید اندر گئے تو جانے وہاں ہمارے مقابلے پر اترنے والے لوگ ہمارا کیا حال کریں گے؛ چنانچہ باغیوں نے نہ صرف آگے بڑھنے سے انکار کر دیا بلکہ وہیں سے دکن واپسی کا بھی مطالبہ کر دیا۔

شورش اتنی بڑھ گئی کہ سکندر کا راج سنگھاسن ڈولنے لگا۔ تو کیا ایک فاتح فوج اپنے فاتح سپہ سالار کے خلاف بغاوت کر کے گھر لوٹ جانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ وہ تو اپنے سپہ سالار کو سر پہ اٹھا لیتی ہے اور مزید پیش قدمی پر آمادہ ہوتی ہے۔ یہ بغاوت صرف اس لیے ہوئی کہ یونانی سپاہی پورس کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد بد دل ہوگئے۔

سکندر اعظم نے ایک روایت کے مطابق اپنی فوج کے دس ہزار کے قریب سپاہی بغاوت کے جرم میں تہہ تیغ کر دیئے لیکن اس بغاوت پر قابو پانے کے باوجود اس نے شاید اپنے سپہ سالاروں کے مشورے سے واپسی کا فیصلہ کر لیا اور وہ روایت کہ جب سکندر نے پورس سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے تو اس نے کہا کہ جو سلوک بادشاہ بادشاہوں سے کرتے ہیں تو سکندر نے یہ جواب سن کر پورس کو اس کی سلطنت لوٹا دی۔

ذرا تصور کیجیے کہ اتنی خونریزی اور قتل و غارت کے بعد اس نے فتح کی ہوئی سلطنت خوش ہو کر واپس کر دی؟ اور ہم روایت کو بھی طوطوں کی طرح رٹتے رہتے ہیں اور سکندر کی عظمت کے گیت گاتے ہیں۔ حضور پورس سے اس کی سلطنت اس نے چھینی کہاں تھی جو واپس کر دیتا۔

کیا یہ روایت اپنے اندر تاریخ کا مہمل پن پنہاں نہیں رکھتی؟ ٹیکسلا کے بعد جب وہ ایک تباہ حال اور ہمت ہار چکی فوج کے ساتھ دکن واپسی کا راستہ اختیار کر رہا تھا تب بھی مقامی قبائل اس پر حملہ آور ہو کر اسے زک پہنچاتے رہے۔ ملتان کے آس پاس اس کے مقابلے میں ملہی قبائل آئے جن کا قلعہ فتح کرنے کی کوشش میں سکندر کے سینے پر برچھوں کے زخم آئے۔

وہ پہلی بار دشمن کے ہاتھوں زخمی ہوا۔ حیدر آباد پہنچ کر اس نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصہ کشتیوں میں سوار ہو کر سمندر کے راستے ایران کی جانب روانہ ہوا اور دوسرا حصہ ان کشتیوں کو نظر میں رکھتا خشکی کے راستے پسپا ہوتا گیا۔ بابل کے شہر میں پہنچ کر سکندر اپنے زخموں کی تاب نہ لا کر مر گیا۔

اگرچہ کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ رن آف کچھ کی دلدلوں کو عبور کرتے ہوئے وہ ملیریا کا شکار ہوا تھا اور اس بخار سے بابل میں جا کر فوت ہو گیا۔طورخم بارڈر سے ذرا ادھر بائیں ہاتھ پر ایک پہاڑی پر ممبئی پوسٹ واقع ہے جہاں فوج کا ایک ریسٹ ہائوس ہے اور باہر سے آنے والے مہمانوں کو نشستوں کی مدد سے اس کے محل وقوع اور تاریخی حیثیت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

ہمارے میزبان ایک نوجوان کپتان نے ہمیں بھی نیچے پھیلے ہوئے درہ خیبر کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مختصر لیکچر دیا۔ چائے کی میز پر مختلف فوجی افسروں کی میزبانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے اس نوجوان کپتان سے مخاطب ہو کر پوچھا، آپ نے یہ تاریخی معلومات کہاں سے حاصل کی ہیں تو اس نے آرمی لائبریری کے کسی فوجی محقق کا حوالہ دیا۔

میں نے اسے نہایت نرمی سے سمجھایا کہ آپ کے بیانیے میں ایک فاش غلطی ہے۔ آپ نے درہ خیبر کے راستہ ہندوستان پر حملہ آور ہونے والے شاہوں اور سلطانوں کے سکندر اعظم کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے تو اسے درست کر لیجیے کہ سکندر ہرگز درہ خیبر کی جانب سے ہندوستان میں داخل نہیں ہوا تھا بلکہ وہ باجوڑ، دیر اور سوات کے راستے اٹک تک پہنچا تھا۔

علاوہ ازیں آپ نے درہ خیبر کے راستے ہندوستان پر یلغار کرنے والوں کے نام تو لیے ہیں لیکن ایک ایسی ہندوستانی بلکہ پنجابی فوج تھی جس نے درہ خیبر کے راستے نکل کر افغانستان پر حملہ کیا تھا جو جنرل ہری سنگھ نلوہ کے زیر کمان تھی۔ کم از کم اس کا نام آنا چاہیے۔

بہرطور سکندر تو بابل پہنچ کر کسی زخم سے یا بخار سے مر گیا لیکن ہم سب کو ہمیشہ کے لیے سکندر بخار میں مبتلا کر گیا۔ ہم اپنے بچوں کے نام سکندر رکھتے ہیں لیکن پورس سے اجتناب کرتے ہیں اگرچہ اس کا مطلب صرف راجپوت ہے۔ ہمارے چترال کے کالاش قبیلے کے بارے میں مشہور کر دیا گیا ہے کہ یہ تو سکندر اعظم کی اولاد ہیں اس لیے اتنے گورے اور نیلمی آنکھوں والے ہیں۔

سکندر کے کچھ سپاہی ادھر آ نکلے اور مقامی خواتین کے ساتھ گھل مل گئے۔ بھئی یہ سکندر کے سپاہی آف روٹ ہو کر ادھر کہاں جا نکلے۔ کالاشیوں کو بھی یہ نسبت قبول ہے حالانکہ مقامی خواتین سے غیر ملکیوں کا گھلنا ملنا کوئی قابل فخر بات تو نہیں۔ میرا ایک سیریل صرف وادیٔ کالاش کے بارے میں لکھا گیا اور میں کاسٹ کے ساتھ کچھ مدت وادیٔ بھمبوریت میں مقیم رہا۔

مجال ہے کوئی خاتون ہم سے گھلی ملی ہو۔ اس دوران بی بی سی کی ایک ٹیم ’’سکندر اعظم کے نقش قدم پر‘‘ نام کی ایک ڈاکو منٹری کے سلسلے میں وہاں پہنچ گئی۔ گوروں نے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ خوبصورت ہیں تو ان میں ہمارا خون دوڑ رہا ہے۔ ورنہ مقامی لوگ تو کالے کلوٹے ہیں؛ چنانچہ کالاش عورتوں کا رقص شوٹ کرنے سے پیشتر ڈائریکٹر صاحب نے اپنے تھیلے میں سے چند نیکلس برآمد کیے جن کے ساتھ سکندر اعظم کی شبیہہ کے سنہری سکے لٹک رہے تھے۔

یہ نیکلس کالاش خواتین کو پہنائے گئے اور شوٹنگ کے دوران بار بار کیمرہ سکندر اعظم کی شبیہہ کے کلوز اپ پر جاتا رہا اور پس منظر میں جو کومنٹری تھی اس میں کہا جا رہا تھا، دیکھئے کالاش کے یہ لوگ آج بھی سکندر اعظم کی یاد کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ اس کی اولاد میں سے ہیں۔

شوٹنگ سے فارغ ہو کر ڈائریکٹر نے تمام نیکلس خواتین سے اتروا لیے اور کہنے لگے۔ ابھی ہم نے بریر کی وادی میں شوٹنگ کرنی ہے۔ وہاں کی خواتین کو بھی یہی نیکلس پہنائیں گے۔ ڈائریکٹر نے بڑے کھلے دل سے اقرار کیا کہ یہ تو ڈاکومنٹری میں رومان اور تاریخ کا رنگ بھرنے کے لیے ہے ورنہ ایسی شکلوں اور لباسوں کے لوگ ہم نے لداخ اور تبت میں بھی دیکھے ہیں۔

ویسے سکندر اعظم کا ان خطوں کے لیے سب سے بڑا تحفہ ’’طب یونانی‘‘ ہے۔ یہ اس یونانی طب کا کمال ہے کہ جگہ جگہ حکیم حاذق حضرات دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ ہم نے تو کیا پوچھنا ہے خدا ان بندوں سے خود ہی پوچھے گا کہ بھلے لوگو ہندوستان کے قدیم آیورویدک طریقہ علاج کو آخر کیوں طب یونانی پکارتے ہو۔

میں صرف اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ کسی بھی یونانی سے پوچھئے کہ کیا آپ کے ہاں سے یہ طریقۂ علاج آیا ہے تو وہ دم بخود رہ جائے گا۔ مصدقہ اطلاع ہے کہ یونان میں کہیں بھی ایسے حکیم نہیں ہیں جو کشتے وغیرہ فروخت کرتے ہوں اور نہ ہی شہروں کی دیواروں پر ’’نامردی کا شرطیہ علاج‘‘ قسم کے اشتہار دعوت نظارہ دیتے ہیں؛

چنانچہ بے شک ان دنوں یونان اور مقدونیہ والوں کے درمیان سکندر اعظم کی شہریت کے حوالے سے جھگڑا شدید چل رہا ہے لیکن آفرین ہے ہم پر کہ ہم اپنے فاتحین کو فراموش کر کے سکندر ایسے شکست خوردہ غیر ملکی کی یاد زندہ رکھے ہوئے ہیں اور اس کی شان میں یادگاریں تعمیر کر کے فخر کرتے ہیں۔(جاری)

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar