پھلوں کا بادشاہ کون؟


متحدہ عرب امارات کی مارکیٹوں میں بقولِ بعض پھلوں کا بادشاہ (آم ) کئی ممالک سے پہنچ چکا ہے، ہم بھی کھا کر تھوڑا سالطف اُٹھا چکے ہیں، لیکن بھر پور طریقے سے لطف اندوز تب ہوں گے جب اپنی دھرتی پاکستان کا آم پہنچ جائے، پاکستانی آم ہمیشہ تاخیر سے آتا ہے لیکن جب آتا ہے تو پورے آب و تاب کے ساتھ آکر کلین سوئپ کرلیتا ہے، مجال ہے کہ پاکستانی آم کے آنے کے بعد کسی اور کنٹری کے آم کی مارکیٹ میں شان و شوکت باقی رہے، ویجیٹیبل اینڈ فروٹ مارکیٹ میں تو اس کے طفیل ہر طرف پاکستان کا نعرہ لگا رہتاہے، پاکستانی آم پاکستانی آم۔

کم از کم ہم جیسے بے قیمت پاکستانیوں سے یہ پھل بہرحال بہتر ہے کہ اس نے پاکستان کا نام تو روشن کیا ہے، ہم نے فروٹ کے بادشاہ (آم) ہونے کو بعض کا قول اس لئے قرار دیا ہے کہ ہمارے ہاں مَلِکُ الفواکہ (پھلوں کا بادشاہ) آم نہیں ہے کیونکہ اس کے ساتھ بعض لوگ شریف کا لاحقہ لگا کر آم شریف کِہ دیتے ہیں، اب شریفوں کو بادشاہت کا ووٹ بار بار کیسے دیا جائے دوسری وجہ یہ ہے کہ ( آم ) صدر ممنون حسین کی طرح بہت مختصر مدت کے لئے جلوہ دکھا کر غائب ہوجاتا ہے، پھر کئی مہینوں تک کتنی ہی سریلی آواز میں (جھلک دکھلا جا ) گایا جائے حرام ہے کہ وہ دم بھر کے لئے شکل دکھلائے، شنید ہے کہ امرود کے ساتھ بھی بعض لوگ خان کا لاحقہ لگا کر امرود خان کِہدیتے ہیں، اگر واقعی ایسا ہے تو ہم بادشاہت کا ووٹ آئندہ خان کو بھی دینے کے موڈ میں نہیں ہیں، کیونکہ جو حضرات دے چکے ہیں وہ بھی اب ”بد سے بد تر“ کی شکایت کر رہے ہیں، تب ہی تو عالی دماغ اسد عمر نے خزانے کی وزارت کو خیرباد کِہدیا آخر پانچ سال خالی خزانے کے خالی وزیر بنے پھرنے سے کیا فائدہ؟ ویسے بھی ہمارے وزراء جہاں اکنامکس پڑھتے ہیں وہاں خزانہ خالی کرنے کے گُر سکھائے جاتے ہیں بھرنے کے نہیں، خیر

سیاست کے میدان میں تو آئندہ خلائی مخلوق سے استشارے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیاجاسکے گا البتہ پھلوں کی دنیا میں ہم خود مختار ہیں اپنے ذوق کی بات کرسکتے ہیں، اس لئے ہم آج ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں پھلوں کا بادشاہ انگور ہے انگور، انگور کو ہم نے بادشاہت کا ووٹ اس لئے دیا کہ اس سے استفادہ آسان ہے، بعد میں ہاتھ دھونے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، اور ہمارے احباب جانتے ہیں کہ ہم کھانے میں کس قدر ماہر ہیں! اس لئے اُمید ہے کہ وہ انگور کو بادشاہت کے ووٹ دینے پر ناراض نہیں ہوں گے۔

سنا ہے عرب حضرات ( آم) کو (فاکھۃ الخَلوۃ) کہتے ہیں (یعنی تنہائی میں کھایا جانے والا پھل) شرعاً کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت ( تنہائی ) میں بیٹھنا گناہ ہے اور اس خلوت کو خلوتِ محرَّمہ کہاجاتا ہے، حدیث میں آتاہے : تم میں سے کوئی شخص کسی اجنبی عورت کے ساتھ بغیر محرم کے تنہائی اختیار نہ کرے ”اور ایک خلوت، خَلوتِ صحیحہ کہلاتی ہے یعنی رخصتی کے بعد میاں بیوی کا کسی ایسی جگہ جمع ہوجانا جہاں کوئی اور نہ ہو، جب میاں بیوی کو ایسا ماحول میسر آجائے تو خلوتِ صحیحہ متحقق ہوجاتی ہے اور شوہر کے اوپر بیوی کے لئے پورا مہر واجب ہوجاتا ہے چاہے چھیڑ چھاڑ وجود میں آئے یا نہ آئے۔

اب آم جس خلوت میں کھایا جاتا ہے اُس خلوت کو حرام تو نہیں کِہسکتے، کیونکہ کھانے والا پیسے دے کر ایک قسم کا مہر ادا کرچکا ہوتا ہے، اس لئے بجا طور پر یہ خلوت خلوتِ صحیحہ کِہلائیگی، البتہ قرق یہ ہے کہ اس خلوت کے صحیح ہونے میں بیوی، بچے اور بے تکلف دوست رکاوٹ نہیں ہے بلکہ اُن کے ساتھ بیٹھ کر بھی آم کے ساتھ چھیڑ خانی کی جاسکتی ہے، لیکن داڑھی مونچھ والے ہوشیار رہیں کہ بیوی لبرل نہ ہو کیونکہ لبرل بیوی کو ایک تو ویسے بھی داڑھی، مونچھ سے چِڑ ہوتی ہے اور جب وہ داڑھی مونچھ کو زرد آلود دیکھے گی تو عینِ ممکن ہے کہ جس آم کو آپ کھانے کے لئے لائے ہیں وہی آپ کی دھنائی کا سبب بن جائے، ہماری لائف پاٹنر چونکہ لبرل نہیں ہے بلکہ قدامت پرست ہے اس لئے ہم اُن کے ساتھ بیٹھ کر آم بغیر جھجک کے کھالیتے ہیں بلکہ (آم) کی اُلٹی سے ہمیں بچانے کے لئے وہ ہماری مدد بھی کرلیتی ہے، البتہ سلیقے اور شائستگی کے ساتھ کھانے کی نصیحت کرنے سے باز وہ بھی نہیں آتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).