قوموں کا عروج و زوال


پچھلے دنوں فیسبوک پہ ایک ویڈیو دیکھی جس میں ترکی کے ایک جہاز کے عملہ کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جہاز میں پرائمری سکول کے ایک استاد سفر کررہے ہیں۔ معلوم ہونے پر جہاز کے پائلٹ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے جہاز میں ایک استاد سفر کررہے ہیں۔ اعلان سنتے ہی سارے لوگ احتراما کھڑے ہوجاتے ہیں اور جہاز کا عملہ پھول لاکے استاد کو پیش کرتا ہیں۔ اس احترام کو دیکھ کر استاد کے آنکھوں میں خوشی سے آنسو آجاتے ہیں۔

آج ایک اور ویڈیو دیکھی جوکہ پاکستان کی تھی جس میں بھی ایک بوڑھا استاد رو رہا ہے لیکن اس کے آنسو خوشی کے نہیں بلکہ شدید دکھ اور غصے کی ہیں۔ بات کچھ یوں تھی کہ پنجاب کے گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول فاروق آباد میں عنبرین سمیر نامی ایک ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر نے طلباء کے سامنے سئنر سائنس ٹیچر طاہر محمود آسی کے ساتھ کلاس کے دوران ہتک آمیز رویہ اختیار کیا اور کلاس میں قوم کے معمار یعنی استاد کے جوتے اتروادیے اور استاد کی تذلیل کی۔

یہ دو ویڈیو یا دو واقعے نہیں بلکہ دو قوموں کی ذہنیت کی عکاسی ہے۔ ایک طرف وہ قوم جو سکول سے باہر استاد کو اتنی عزت دیتی ہے کہ جس کے احترام کو دیکھ کر استاد کے خوشی سے آنسو نکلتے ہیں جبکہ دوسرے طرف وہ قوم جہاں کلاس روم میں طالبعلموں کے سامنے تذلیل ہونے کی وجہ سے استاد دھاڑیں مار مار کر روتا ہے۔

یہ دو واقعے ہمیں دو قوموں کی بلندی اور پستی کا سبب بھی بتاتی ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ترکی آج ایک تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ ملک ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے قوم کے معماروں کو عزت دی ہے جبکہ دوسری طرف آج ہم پاکستانی اگر دنیا کے نظروں میں گرے ہوئے ہیں اور تعلیمی، معاشی، اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی پستی کے شکار ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہیں کہ ہم نے قوم کے معماروں کو عزت و احترام دینے کی بجائے ان کی تذلیل کی ہے۔

اسلام سمیت دنیا کے تمام مذاہب میں استاد کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور تاریخ گواہ ہیں کہ جس قوم نے استاد کی جتنی عزت کی ہے اس نے اتنی ہی ترقی کی ہے اور جس قوم نے استاد کے رتبے کو نہیں جانا وہ پستی کا شکار ہوگئی ہے۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ مجھے جاپان کی ترقی کا اندازہ اس دن ہوا جب جاپان میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے مجھے ٹریفک چلان ہوا اور میں مصروفیت کی وجہ سے عدالت میں مقررہ وقت پہ پیش نہ ہو سکا۔ عدالت کے لیٹ ہونے کی وجہ پوچھنے پر جب اس نے بتایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور مصروفیت کے بنیاد پہ عدالت میں پیش نہ ہوسکے۔ استاد کا نام سن کے جج نے کہا ”A teacher is in court“ اور جج سمیت تمام لوگ احتراما کھڑے ہوگئے اور مجھے عزت و توقیر سے رخصت کیا۔

آج اگر ہم تعلیمی، تہذیبی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی پستی کے شکار ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہیں کہ ہمارے یہاں پہ کرپٹ اور نالائق دنیادار شخصیات کو تو عزت دی جاتی ہے لیکن یہاں پہ اساتذہ کی تذلیل کی جاتی ہے اور اساتذہ کو چھری مار کے قتل کیا جاتا ہے۔ یقینا جب تک ہمارے معاشرے میں اساتذہ کو سربلند نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہمارا معاشرہ زوال پذیر رہے گا اور ہم پستی کے شکار ہوں گے۔

طاہر محمود آسی صاحب نے اب احتجاجا یہ ٹھان لیا ہے کہ وہ اس کے بعد جوتے نہیں پہنیں گے اور ننگے پاٶں اپنے شاگردوں کو علم کی روشنی سے روشناس کریں گے۔ یقینا طاہر صاحب کا احتجاج کسی ایک فرد یا ادارے کے خلاف نہیں بلکہ اس پورے نظام کے خلاف احتجاج ہیں۔ جہاں قوم کے معماروں کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔ اس کے ننگے پاٶں ہمارے ننگے ضمیر اور اس ننگے نظام کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں۔ سر ہم آپ کے سامنے شرمندہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).