اخلاقیات کی بنیاد: مذہب یا سائنس؟


سوال اتنا سا ہے۔

اخلاقیات کا ماخذ طبیعاتی ہے یا مابعد طبیعاتی؟

ڈارون کا نظریہ ارتقاء جب انسان کے حیوانی وجود کی کڑیاں ملاتا ہے تو مذہبی بیانیے کو اس پر کوئی اعتراض نہیں، اگر کوئی قدغن لگائی بھی گئی ہے تو وہ سطحی ہے۔

وجہ نزع اور بحث کا موضوع انسان کا اخلاقی وجود ہے۔

سائنس کا مقدمہ ہے کہ انسان نے اخلاقی اصول کا سفر ارتقائی انداز میں طے کیا۔ ”شکاری انسان“ کے اپنے پیمانے تھے جنھیں آج کی اصطلاح میں ”جنگلی“ کہا جاتا ہے، ”زراعت“ کی ایجاد نے احترام آدمیت کا پہلا زینہ طے کیا ”انسان خوری سے غلامی“، انسان نے جانا کہ ایک دوسرے کو کھانے سے زیادہ فائدہ مند اسے غلام بنانا ہے، ”صنعتی دور“ نے اس پر زور دیا کہ غلامی کو ورکراور یونین کا لبادہ پہنایا جائے تو وہ زیادہ سودمند ہوگا۔

انسان خوری سے غلامی سے استحصال کا سفر ارتقائی ہے۔ اٹھارویں صدی میں امریکی اور فرانسیسی انقلاب، انیسویں صدی میں امریکی خانہ جنگی، بیسویں صدی میں دو عظیم جنگوں کے تناظرمیں شاعروں، مفکروں، ادیبوں اور فلسفیوں نے نیا مذہب تخلیق کیا جسے ہم آج ”انسانیت“، ”ہیومنزم“ کے نام سے جانتے ہیں، ہیومنزم میں اخلاقیات کی بنیاد ”فائدہ“ پر ہے۔

مذہب کا مقدمہ مختلف ہے، اس کا کہنا یہ ہے کہ انسان کے حیوانی وجود کے ارتقاء کے بعد خدا نے اس میں Divine Spark پھونکا، اول روز سے وہ اخلاقی شعور سے آراستہ تھا، ”فالھمھا فجورہا و تقوھا“ اس کی تخلیق کا بنیادی جز تھا، شعور کی نعمت مسؤلیت کو متقضی ہے، وہ عندللہ جواب دہ ہے، اس فطرت سے کجی پر فاطر کے سامنے حساب دینا ہوگا، قابیل کا ہابیل کے قتل پر ندامت اس فطرت پر گواہ ہے ”تہذیبی، تمدنی، معاشی اور معاشوتی ارتقاء نے اس کی صورت گری کی ہے ویسے یہ اول روز سے ہی ودیعت کردہ ہے۔ اس کی تاریخ“ معاہدہ الست ”سے شروع ہوتی ہے، آدم اور حوا اس روشنی سے بہرہ مند تھے، نوح اور اس کی ذریت انہی مسلمات کی تلقین کرتے تھے، ابراہیمی مذاہب میں Ten Commandments اسی کی تشریح ہیں، قران نے آکر بس ان پرتصدیق کی مہر ثبت کی۔

سوال کو از سر نو ترتیب دیتے ہیں، مسلمہ اخلاقیات کیا ودیعت کردہ ہیں یا ارتقائی ہیں؟

جواب آپ کے ذوق پر چھوڑتے ہیں، ایک اور سوال کرتے ہیں۔

اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟

دونوں مختلف بنیادی اساسات رکھتے ہیں۔ بظاہر ایک ہی جیسی خصوصیات کی تبلیغ کرتے ہیں، لیکن ہیومنزم اور مذہب میں واضح خلیج موجود ہے۔

اس فرق کو یووال نوح حراری نے واضح کیا ہے۔

ان کا اصل میدان تو بہرحال کچھ اور ہے، Sapiens اور  Homo Deus کے مصنف نے جو خاکہ ترتیب دیا ہے وہ کچھ یوں ہے : جنگلوں میں شکار سے کھیتی باڑی تک اور پھر دھواں اڑاتی صنعتوں تک انسان نے ”ہیومنزم“ کا کامیاب مذہب تخلیق کیا ہے، info۔ tech اورbio۔ tech میں غیر معمولی ترقی کے بعد ہم اب Digital دور میں داخل ہو رہے ہیں، ”انسانی خدایوں“ کے اس عہد میں ”ہیومنزم“ اپنی بنیادیں کھونے لگا ہے۔

یہ ہمارا موضوع نیہں، ہم جیسے شاگردوں کے لیے البتہ وہ مقامات اہم ہیں جہاں انہوں نے ”مذہب“ اور ”ہیومنزم“ میں اخلاقی مسلمات پر عمل پیرا ہونے کے لیے وجہ تحریک بیان کی ہے۔

حراری نے اپنی مشہور کتاب ”21 صدی کے 21 اسباق“ میں سائنسی ذہن کے لیے بنیادی اخلاقی خصوصیات بیان کی ہیں، قاری اگر ذوق رکھتا ہو ظاہری مشابہت کے باوجود کہ مذہب اور سائنس میں عام ہیں اس فرق کو محسوس کرسکتا ہے۔

1۔ سب سے زیادہ اہمیت ”سچائی“ کی ہے نہ کہ ”عقیدے“ کی۔ عام طور پر ”ایمان“ کی ضرورت وہیں ہوتی ہے جہاں ”سچ“ ثابت نہ کیا جا سکے۔ سائنسی ذہن سچ کو تسلیم کرتا ہے چاہے وہ بوسیدہ ہڈیوں کے علم میں پنہاں ہو، دور دراز کہکشاوں کی عکس بندی ہو، شماریاتی اعدادشمار ہوں یا انسانی روایات ہوں۔ ”سچائی“ کے ساتھ اس عہد نے انسان کو اس قابل بنایا کہ وہ ایٹمی ذرات کو توڑ سکے، حیاتاتی خلیوں کو پڑھ سکے اور ارتقائے زندگی کو سمجھ سکے۔

2۔ دوسری اہمیت اس سائنسی ذین کے لیے ”ہمدردی“ کی ہے۔ اس لیے نہیں کہ یہ کسی خدا کا الہام ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ”انسانی تکالیف“ کی صحیح تفہیم رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پرسیکولر لوگ قتل سے اس لیے اجتناب نہیں کرتے کہ یہ کسی ”پرانی کتاب“ میں لکھا ہے بلکہ اس لیے کہ یہ عمل انمان کے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ رہے وہ لوگ جو اس لیے جان نہیں لیتے کہ ”کسی خدا“ نے روکا ہے خطرناک ہیں کیونکہ ان کے رکنے کی وجہ ”فرمابرداری“ ہے نہ کہ ”ہمدردی“۔ وہ کیا کریں گے اگر انہیں یہ یقین دلایا جائے کہ خدا نے حکم دیا ہے کہ بدعتیوں، ملحدوں، زانیوں، غیرملکیوں اور جادوگروں کو مارا جائے۔

3۔ سچ اور ہمدردی کے بعد ان کا یقین ”برابری“ پر ہے۔ سچائی جہاں سے ملے جس سے ملے، تکلیف جس کسی کو ہو۔ جہاں وہ اپنی قوم اور ملک کے بارے میں آگاہ ہیں وہاں انسانیت کی ذمہ داری کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔

4۔ سچائی کے حصول کے لیے وہ ”آزادی“ پر یقین رکھتے ہیں، سوچنے کی، تحقیق کی، تجربے کی، وہ نیہں مانتے کہ کوئی ”مقدس کتاب“ یا ”ادارہ“ ہا ”سخصیت“ منصف کے طور پر بتا سکتا ہے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط۔

5۔ ان سب کے لیے ”ہمت“ درکار ہے۔ یہ کہنے اور ماننے کی کہ ہم نہیں جانتے۔ انسانی ذہن اس کا عادی تھا کہ اگرہم نے اپنا یقین کسی ”مطلق سچائی“ پر نہ رکھا تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔ جدید تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ لوگ جنھوں نے مانا کہ وہ نہیں جانتے اور مشکل سوالات اٹھائے وہ نہ صرف زیادہ ترقی یافتہ بلکہ امن پسند رہے بنسبت ان لوگوں کے جنھوں نے ”ایک جواب“ پر یقین رکھا، موخر الذکر لوگ تشدد پسند بنے کہ ان کی سچائی خطرے میں نہ پڑجائے اور وہ سوالات اٹھانے سے ڈرے۔

ایسے سوالات جن کا آپ جواب نہ دے سکیں بہتر ہیں ان جوابات سے جن پر آپ سوال نہ کر سکیں۔

6۔ آخر میں ”احساس ذمہ داری“، ہم بحیثیت انسان کامیابیوں اور ناکامیوں کے ذمہ دارہیں۔ اگر دنیا میں بھوک، افلاس اور دکھ ہے تو اس کا حل ہمیں ہی نکالنا ہے۔ اور جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس کا سہرا ہمارے سر ہے۔ کسی ”الوہی طاقت“ کو اس پر موردالزام ٹہرانا یا اس کی تعریف کرنا ضروری نہیں۔

اگر تدبر کی نگاہ ڈالیں تو یہ عقدہ کھلے گا کہ بلاشبہ مندرجہ بالا چھ خصوصیات مذہبی اور سائنسی ذہن کا مشترک سرمایہ ہیں، لیکن دونوں میں بنیادی فرق ”وجہ تحریک“، ان پر عمل پیرا ہونے کی وجہ ہے۔ دونوں کی motivational source مختلف ہے۔

ایک کی بنیاد آخرت کی جواب دہی پر ہے۔ مابعدطبیعاتی، ودیعت کردہ فطرت۔

دوسرے کی بنیاداسی دنیا پر۔ طبیعاتی، اخلاقیات ارتقا کا حاصل۔

حراری نے جیسے سائنسی ذہن کی نمائندگی کی ہے، مذ ہبی نقطہ نظر کو سمجھنے لے لیے امین احسن اصلاحی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اخلاقیات کی بنیاد انسانی فطرت پر رکھی گئی، فاطر کائنات نے یہ فطرت انسان میں تخلیقی مراحل میں رکھ دی۔ قرانی اصطلاح میں اسے ”تسویہ“، ”نک سک درست کرنا“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ مرحلہ انسانی تخلیق کا ایک مستقل مرحلہ ہے۔ یہی تسویہ حیوانی وجود کو اخلاقی وجود سے ممتاز کرتا ہے۔ تمام انبیا اور کتابیں اسی فطرت کی ”یادہانی“ کے لیے نازل کیے گئے۔ یادہانی، تذکیرکا لفظ خود شاہد ہے کہ ان کی بنیاد شعور میں موجود ہے۔ تمام ”الہامات“ اس کے سوا کچھ نہیں کہ جو چیز ہم ”بھول“ گئے ہیں ان کی ”یادہانی“ کرادی جائے۔

اپنی شہرہ آفاق تفسیر ”تدبرقرآن“ میں سورہ لقمان کے مقدمے میں جہاں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو ”بنیادی اخلاقیات“ کی نصیحت کرتے ہیں، رقم طراز ہیں

”یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ مغربی فلاسفہ جب اخلاقیات پر بحث کرتے ہیں تو اس کی بنیاد وہ عقل عام کے معروف اخلاقی مسلمات ہی پر رکھتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ یہ اخلاقی مسلمات کہاں سے پیدا ہوگئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک حکیم فاطر اور فطرت للہ کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس حقیقت سے گریز کی سزا ان کو اللہ نے یہ دی کہ ان کا سارا فلسفہ اخلاق بالکل بے بنیاد اور بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ ان کی تمام فلسفیانہ کاوشیں نہ تو نیکی اور بدی کے امتیاز کے لیے کوئی کسوٹی معین کرسکیں اور نہ وہ یہ بتا سکے کہ کیوں انسان کو نیکی کرنی چاہیے اور کیوں بدی سے بچنا چاہیے۔

سودمندی، لذت، خوشی اور فرض برائے فرض وغیرہ کی قسم کے جتنے نظریات بھی انہوں نے ایجاد کیے سب پادر ہوا ثابت ہوئے اور خود انہیں نے ان کے بخیے ادھیڑکر رکھ دیَے۔ قرآن نے نہ صرف اخلاقیات کی بلکہ پورے دین کی بنیاد فطرت پر رکھی ہے، اور یہ فطرت چونکہ ایک حکیم فاطر کی بنائی ہوئی ہے اس وجہ سے کسی کے لیے اس سے انحراف جاَئز نہیں ہے۔ جو شخص اپنی فطرت سے انحراف اختیار کرے گا وہ اپنے آپ کو تباہ اور اپنے فاطر کو ناراض کرے گا۔ انسان کی راہنمائی کے لیے اس کی فطرت اپنی اندر حقائق اور معارف کا خزانہ رکھتی ہے لیکن انسان اپنے ماحول سے متاثر ہو کر بگڑ بھی سکتا ہے۔ اسی لے لیے پیغمبر اور کتابیں نازل ہوئیں۔ ”

شاید یہی وجہ ہے کہ ”فلاح“ اور success ایک دوسرے کے ہم معنی نہیں، اور شاید اسی وجہ سے آئنسٹائن کے نظریہ اضافت کو تو مذہبی ذہن قبول کرلیتا ہے اسے مسلئہ ڈارون کے نظریہ ارتقا سے ہے۔

سوال اہم یہ ہے۔

طبیعات کے میدان میں سائنس کی اجارہ داری پر کسی کو کلام نہیں، لیکن کیا سائنس مابعدطبیعاتی بنیادوں کا بھی نعم ا لبدل بن سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).