اگلے وزیراعظم شاہ محمود قریشی ہو سکتے ہیں


کیونکہ افواہوں کا بازار گرم ہے اور پیشینگوئیوں کی دکانیں جا بجا کھل چکی ہیں، تو ہم نے سوچا ہم کیوں پیچھے رہیں۔ چلیں دو چار ریوڑیاں ہم بھی بیچ لیں۔ اگرچہ سیاست اور صحافت سے ہمارا اتنا ہی قریبی تعلق ہے جتنا کہ نواز شریف اور بابرہ شریف کا آپس میں، لیکن کیا حرج ہے کبھی کبھی تکے بھی تو لگ جاتے ہیں۔ اگر تیر نشانے پر بیٹھ گیا تو بلے بلے ورنہ صاف کہہ دیں گے صاحب قصور آپ کا ہے، پیشینگوئی الٹی کر کے پڑھ لیتے اگر کچھ لوگ پوری طرح تحقیق و تفتیش کر کے بونگیاں مار سکتے ہیں، تو ہم بغیر تحقیق کے یہی کام کیوں نہی کر سکتے۔

اگرچہ ہمارے کچھ سینئیر بھائی بالکل درست پیشینگوئیاں کر کے کافی نام کما چکے ہیں، یعنی جو پیشین گوئیاں انہوں نے کیں، اس کے بالکل الٹ ہوا۔ حالانکہ ان کی پیشینگوئیوں کو الٹا کر کے پڑھ لیا جاتا تو سیدھا مطلب سمجھ آجاتا، جیسا کہ، جب سے عمران خان نے محمود خان اور عثمان بزدار کو نوکری پکی ہونے کی نوید سنائی ہے، سب لوگوں کو پکا یقین ہو گیا ہے، کہ ان دونوں کی چھٹی یقینی ہے۔ یعنی ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔ آج کل سیدھی انگلی سے گھی نہیں نکلتا تو سیدھی طرح سے پیشین گوئی پڑھنے سے اس کا مطلب کیسے سمجھ میں آ سکتا ہے۔

چند ثقہ قسم کے صحافتی بزرگوں نے چوہدری نثار کے حلف اٹھانے اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ انہیں سونپے جانے کا امکان ظاہر کیا ہے، جبکہ اسد عمر کی ناگہانی رخصتی کے بعد افواہوں کے بازار میں تیزی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اگرچہ پنجاب میں مسلم لیگ نون، پی ٹی آئی کے ناراض ایم پی ایز، پیپلز پارٹی کے اراکین اور چوہدریوں کو ملا کر نئی سیاسی معجون تیار کی جا رہی ہے، جو کہ امید ہے دو سے تین مہینے میں لوگوں کو کھلانے کے لئے دستیاب ہو جائے گی۔

لیکن محکمہ زراعت سے اس پروڈکٹ کی منظوری کا انتظار ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے، ساری بیریاں چوہدری نثار کی جھولی میں جاتی ہوئی دیکھ کر چوہدری پرویزالٰہی خود ہی آگے آ کر سب کچھ سنبھال لیں۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ وہ کام کر چکے ہیں۔ محکمے والوں سے بھی پرانی یاری ہے۔ تجربہ بھی ہے اور سب سے بڑھ کر نون لیگ والے ہر قیمت پر شریکوں کی دیوار گرانا چاہتے ہیں بھلے ہی وہ خود بھی نیچے کیوں نہ آ جائیں۔ اگر پنجاب میں اس طرح کی تبدیلی آ جاتی ہے، تو مرکز میں کپتان کی تبدیلی بھی ناگزیر ہو جائے گی۔

آج ہی چوہدری سرور نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام میں ”اگر ترین ناگزیر ہے تو ہم بھی کوئی چنے بیچنے کے لئے نہیں بیٹھے ہوئے“ کا بیان دے کر تحریک انصاف میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ اور روز افزوں در آنے والی دراڑوں کو بری طرح سے بے نقاب کر دیا ہے۔ اب موجودہ صوتحال میں اگر نئے انتخابات ہو جاتے ہیں تو تحریک انصاف کی تمام تر نا اہلی کے باوجود لوگ دوبارہ نئے خواب آنکھوں میں سجا کر نون لیگ کو کبھی ووٹ نہیں دیں گے۔ دراصل نون لیگ سے بددل لوگ ہی اچھے مستقبل کی امید لے کر تحریک انصاف کے ساتھ ہو لیے تھے، تو ظاہر ہے اتنی جلدی نون لیگ سے محبت کی شمع لوگوں کے دلوں میں دوبارہ روشن ہونے کی زیادہ امید نہیں، جس کی قیادت ابھی تک اپنے اوپر عائد ہونے والے بد عنوانی کے الزامات سے نمٹنے میں مصروف ہے۔

پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ویسے بھی لوگوں کو دن میں تارے دکھا دیے تھے، جبکہ بلاول کو ابھی تک پپا اور پھپھو کے زیر اثر ہی سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان کے آٹھ ماہ کے دور حکومت میں اگر کسی وزیر نے عزت کمائی ہے اور کام کیا ہے تو وہ شاہ محمود قریشی ہیں۔ جن پر نہ تو کوئی کرپشن کا سنگین الزام ہے اور نہ ہی ان کو ناتجربہ کار کہا جا سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بننے سے پہلے بھی مختلف حکومتوں میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔

اور مقتدر قوتوں کے لئے بھی قابل قبول ہوں گے۔ نئے انتخابات کروانے کی مشق سے بدرجہا بہتر یہ سمجھا جائے گا کہ مختلف جماعتوں سے لوگوں کو لے کر عملی طور پر ایک وسیع البنیاد حکومت تشکیل دی جائے، جو ملک کو موجودہ داخلی، خارجی اور معاشی بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کر سکے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ ان ہاوس تبدیلی لے آنے کی کوشش کی جائے گی۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوگوں کو تحریک انصاف کی حکومت کے ناکام ہونے پر بغلیں بجانے اور دوبارہ اقتدار میں آ جانے کا خواب کچھ دنوں کے لئے زیر التوا رکھنے کی ضرورت ہے۔ خان صاحب کی ناکامی کی صورت میں اسی پارلیمان کے اندر رہتے ہوئے نئی حکومت بنانے کی کوشش کی جائے گی، اور اگر یہ تجربہ بھی ناکام ہو گیا، تو خدانخواستہ موجودہ جمہوری نظام کی بساط لپیٹی بھی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).