پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور اور لندن کی ایک سوسائٹی گرل


کچھ اپنے بارے میں بتاؤ۔ میں نے مختصراً اپنے اور فیملی کے بارے میں بتایا۔ پھر وہ اپنے بارے میں بتانے لگی۔ کہ ایک بہن امریکہ میں شفٹ ہو گئی ہے۔ بھائی گلاسگو میں رہتا ہے۔ ماں جسے وہ بہت چاہتی تھی تین سال پہلے فوت ہو گئی ہیں اور باپ کچھ پتا نہیں ہے۔ کہ وہ کہاں ہے اور نہ ہی ماں نے اس کے بارے میں ہمیں کچھ زیادہ بتایا ہے۔ میں نے گریجویشن کے بعد کافی جگہوں پر کام کیا ہے اور اب میں لندن شہر کی ایک بہت ہی اعلیٰ درجے کی سوسائیٹی گرل ہوں۔

شہر کے بڑے بڑے بزنس مین اور سرکاری افسر میرے اوپر مرتے ہیں۔ سب اپنی باتیں سناتے ہیں۔ لیکن میرے دل کی بات کوئی نہیں سنتا۔ اور چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے کافی وقت ہو گیا۔ تو میں اُٹھنے لگا۔ تو اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں گہری اداسی اور التجا تھی کہ کچھ دیر اور بیٹھ جاؤں۔ میں نے اجازت چاہی اور اُٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا۔ وہ میرے پیچھے دروازے تک آئی اور اس کے ساتھ وقت گزارنے کا شکریہ ادا کیا۔

اس سے دوسرے تیسرے دن والد صاحب کی وفات کی وجہ سے مجھے پاکستان آنا پڑ گیا۔ مکان اور باقی جائیداد کے قانونی معاملات نمٹانے میں تین چار ماہ لگ گئے۔ والد صاحب کی وفات کے بعد جب میں واپس آ کر دوبارہ بیس پر حاضر ہوا اور کام شروع کیا تو ایک دن ریڈیو آپریٹر نے گپ شپ کے درمیان بتایا کہ ایک انگریز خاتون نے کافی دفعہ آپ کے لیے فون کیا تھا اور ایک دن وہ بیس پر بھی آ ئی تھی۔ یار کیا خاتون تھی۔ میں نے بات ٹال دی لیکن کافی فکر مند ہو گیا اور سوچ میں پڑ گیا۔

میں نے ریڈیو آپریٹر سے کہا کہ اب اگر فون آیا تو کہنا کہ میں اس بیس سے کام چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا ہوں۔ پھر زندگی ایک ڈگر پر چل پڑی۔ اچانک ایک دن سنٹرل لنڈن میں میڈم تساہو کے باہر میں نے کسٹمر کو اتارا کہ وہ مجھے دکھا ئی دی۔ میں نے اسے نظر انداز کیا لیکن شاید ا س نے مجھے پہلے دیکھ لیا تھا اس لیے اس نے قریب آ کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گئی اور اس نے بڑی گرم جوشی سے کہا کہ میں نے تمیں بہت تلاش کیا۔

تم نے وہ علاقہ چھوڑ دیا ہے میں تمہا رے بیس پر بھی گئی تھی۔ میں نے پوچھا کہاں جانا ہے تو اس نے گھر چلنے کو کہا فلیٹ پر پہنچ کر اس نے مجھے اندر چلنے کو کہا۔ میرے انکار پر میرا ہاتھ پکڑا او ر کچھ دیر کے لیے اندر چلنے کی التجا کی میں نے گاڑی بند کی اور اس کے پیچھے اس کے فلیٹ کے اندر چلا گیا اس نے مجھے فرنٹ روم میں بٹھایا ایک کوک کا ٹن کھول کر میرے آگے رکھا اور خود اوپر کمرے میں چلی گئی پندرہ منٹ بعد جب وہ نیچے آ ئی تو میں دنگ رہ گیا اس نے بہت ہی توبہ شکن قسم کا لباس پہنا ہوا تھا اور ہلکے میک اپ کے ساتھ وہ کو ئی اپسرا لگ رہی تھی۔

میرے اندر خوف کی ایک لہر دوڑ گئی اور میں زندگی میں پہلی دفعہ ڈر گیا۔ دعا مانگی اے اللہ تعالی آج میرا ساتھ دینا۔ وہ میرے سامنے کوچ پر بیٹھ گیٔ۔ آج کی شام میں نے اپنی مرضی سے تمہارے ساتھ گزارنی ہے اس نے کہا۔ دیکھومیں نے پہلے بھی تمہیں کہا تھا کہ میں شادی شدہ بال بچے دار اور ایک غریب ٹیکسی ڈرایٔور ہوں۔ آپ کے قابل بھی نہیں ہوں اس لیے مجھے معاف کر دو۔ میں یہ کہہ کر باہر نکلنے لگا تو اس نے مجھے زبردستی روک لیا اور کہنے لگی۔

میں لنڈن شہر کی ایک ہا ئی کلاس کی سوسایٹی لڑکی ہوں۔ لوگ میرے ساتھ ایک رات گزارنے کو ترستے ہیں اور ہزاروں پونڈ خرچ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ لیکن مجھے تم پسند آیٔے ہو اس لیے میں تمہارے ساتھ اپنی مرضی سے ایک رات گزارنا چاہتی ہوں فقط ایک رات اس نے کہا۔ میرے مذہب میں شادی کے باہر تعلق نہیں رکھتے سب سے بڑھ کر میں صرف اپنی بیوی کا ہوں میں نے آج تک اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے تعلق نہیں رکھا اور نہ ہی رکھنا چاہتا ہوں چاہے وہ کتنی خوبصورت اور مالدار ہی کیوں نہ ہو۔

اتنا کہہ کر میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے پھر میرا ہاتھ پکڑ لیا اب اس کی آنکھوں میں غصے اور بے بسی کے ملے جھلے جذبات نظر آ رہے تھے میں نے پھر معذرت کی تو اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔ ٹھکرائے جانے پر غم اور غصے کے شدید جذبات جو پہلے اس کے چہرے پر نظر آ رہے تھے اب اس نے ان پر قابو پا لیا تھا اور اب اس کی آنکھوں میں نمی در آ ئی تھی۔ مجھے اب اس کی حا لت پربہت ترس آ رہا تھا۔ کیا میں اس خاتون کو مل سکتی ہوں میں اس خوش قسمت خاتون کو دیکھنا چاہتی ہوں جس کے لیے تم مجھے ٹھکرا رہے ہو اس نے التجا آمیز لہجے میں کہا۔

وہ ایک سیدھی سادی گھریلو خاتون ہے۔ تمہارے ملنے سے ہماری پرسکون زندگی میں ہلچل ہو سکتی ہے اس لیے میں تمیں اس سے نہیں ملا سکتا میں نے جواب دیا تم میری زندگی کے پہلے مرد ہو جس نے مجھے انکار کیا ہے یہ کہہ کر وہ روتی ہو ئی بیڈروم میں چلی گئی اور میں اس کے فلیٹ کا دروازہ کھول کر باہر آ گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2