پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور اور لندن کی ایک سوسائٹی گرل


انگلستان میں ستر کی دہائی میں آیا تھا۔ جہاں میرے والد کافی عرصہ پہلے کام کے لئے آئے تھے۔ یہاں آتے ہی مجھے سکول میں داخل کرا دیا گیا جہاں سے میں نے GCSE جو کہ میٹرک کے برابر ہوتا ہے کیا۔ اس وقت آگے تعلیم حاصل کرنے کا ہماری کمیونٹی میں کچھ زیادہ شعور نہیں تھا۔ 16 سال کی عمر میں عموماً کام پر لگا دیا جاتا تھا۔ میں نے بھی سکول چھوڑنے کے بعد ایک دوکان پر کام شروع کر دیا پھر میں نے محتلف جگہوں پر کام کیا۔ اور تین چار سال کام کے دوران ڈرائیونگ بھی پاس کر لی۔ اور پھر ٹیکسی ڈرائیور کا امتحان بھی پاس کر لیا۔

لندن میں ٹیکسی کا بیج ملنا ایک بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ اور بلیک کیب کا تو اور بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس کی پلیٹ بھی بہت مہنگی ملتی ہے اور اس کا ٹیسٹ پاس کرنے کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ انگریزی زبان پر عبور اور مہارت پہلی مشروط ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو لندن کے مختلف ائریا۔ اس کی ہر سڑک۔ گلی۔ ہسپتال۔ شاپنگ سنٹر۔ پولیس سٹیشن۔ ہر کلب۔ پب کا ایڈریس معلوم ہونا ضروری ہے۔ آپ نے اپنے گاہک کو مختصر ترین راستے سے اس کی منزل مقصود تک لے کر جانا ہوتا ہے۔ بلیک کیب والے پیسے بھی بہت کماتے ہیں۔

پرائیویٹ ٹیکسی ہائیر کے لئے بھی آپ کو ٹیکسی ڈرائیور کا ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہے۔ گاڑی کی حالت بہت اچھی ہونی چاہیے۔ گاڑی کا فٹنس سرٹیفیکیٹ ہر سال تجدید کرانا ضروری ہے۔ گاڑی کی انشورنس بھی ایک لازمی جزو ہے۔ میں نے بھی ٹیکسی ڈرائیور کا لائیسنس لیا اور ایک ٹیکسی بیس پر اپنی گاڑی رجسٹر کروائی اور کام شروع کر دیا۔ پرائیویٹ ٹیکسی کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہے۔ کہ بیس پر کسٹمر کا فو ن آتا ہے اور وہ اپنی جگہ اور منزل کے بارے میں بتاتا ہے۔ ڈرائیور نے مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر کسٹمر کو اس کے مطلوبہ مقام پر پہنچانا ہوتا ہے۔ اور میٹر کے مطابق یا پھر طے شدہ کرایہ وصول کر لینا ہے۔ بیس والے مہینے بعد ایک طے شدہ رقم ٹیکسی ڈرائیور سے وصول کر لیتے ہیں۔

۔ ٹیکسی ڈرائیور کا امتحان کرنے کے بعد میں بھی ایک پرائیویٹ ٹیکسی BASE کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ اور ٹیکسی چلانا شروع کر دی۔ اس میں ایک آسانی ہے۔ کہ آپ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ جب مرضی ہو جاؤ اور اپنی مرضی سے واپس آ جائیں۔ میں دوپہر کو ایک دو بجے گھر سے نکلتا اور رات کو عموماً دس بجے تک لازمی گھر واپس آجاتا۔ جہاں میری بیوی کھانے پر میرا انتظار کر رہی ہوتی۔ میری بیوی میری خالہ زاد ہے۔ ہماری محبت کی شادی ہے جو کہ بہت ناراضگیوں اور خاندانی رکاوٹوں کے بعد طے ہوئی۔

70 / 80 کی دہائی میں لندن پلٹ جوان سے شادی کرنا بہت سی لڑکیوں کا خواب ہوتا تھا۔ اور رشتہ داروں میں ایسے رشتوں پر خاصی لڑائیاں ہوتی تھیں۔ ہماری شادی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا خیر ہماری جیت ہوئی۔ میری بیوی انتہائی خوبصورت اور سلیقہ شعار خاتون ہے جس نے زندگی کا ہر سکھ دیا ہے۔ جب بچے تھوڑے بڑے ہوئے تو خرچہ بڑھنے کی وجہ سے میں نے ہفتہ اور اتوار کو بھی ٹیکسی چلانا شروع کر دی۔ کیونکہ ان دو دنوں میں باقی دنوں کی نسبت زیادہ کمائی ہوتی تھی اور اب بھی ایسا ہی ہے۔

ہم لندن کے مشرقی حصہ میں رہتے ہیں۔ جہاں ایشیائی باشندوں کی زیادہ تعداد رہتی ہے۔ عرصہ دراز سے انگلینڈ میں جمعہ تنخواہ کا دن ہوتا ہے۔ مزدور طبقہ کو اس دن تنخواہ ملتی ہے۔ وہ ہفتہ والے دن ہفتہ بھر کی خریداری کرتے ہیں۔ گورے لوگ اس دن وہ رات کو پبوں اور کلبوں میں جا کر خوب پیتے پلاتے ہیں۔ اور ویک اینڈ مناتے ہیں

ایک دن ریڈیو پر پیغام آیا۔ کہ فلاں کلب سے کسٹمر کو لے کر اس کے گھر ڈراپ کرنا ہے۔ جاب مجھے ملنے پر میں متعلقہ کلب پہنچا اور کاؤنٹر پر جا کر بتایا۔ کسٹمر ایک خوبصورت جوان انگریز عورت تھی جو نشے میں لگ رہی تھی۔ باہر آکر میں نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور اس سے پوسٹ کوڈ اور گھر کا نمبر لیا اور گاڑی چلا دی۔ میں نے اس کے گھر کا سامنے گاڑی روکی اور اسے آواز دی۔ لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ میں نے نیچے اتر کر پچھلا دروازہ کھولا تو دیکھاکہ وہ بالکل بے سدھ پڑی تھی۔

میں نے کافی آوازیں دیں لیکن وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھی۔ میں شش و پنج میں پڑ گیا۔ کہ کیا کروں۔ ہمیں اکثر حالات کا سامنا رہتا تھا۔ اس لیے میں نے سیٹ پر پڑا ہوا اس کا پرس کھولا اور گھر کی چابیاں ڈھونڈ کر دروازہ کھولا۔ اور پھر اسے سیٹ سے اٹھا کر اندر لے جاکر فرنٹ روم میں کوچ پر ڈالا۔ بہت ہلایا جھلایا۔ لیکن کوئی جواب نہ پا کر میں نے اپنے بیس والے کارڈ پر اپنا نام لکھا اور اس کے ساتھ کوچ پر ڈالا باہر نکل کر دروازہ بند کیا اور اسے کوستا ہوا گاڑی میں بیٹھ کرواپس چل پڑا۔ ایسی صورت حال کا ہمیں کبھی کبھار واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ افسوس ہوا کہ وقت برباد ہوا۔

دوسرے دن میں ابھی میں بیس پر ہی تھا۔ کہ ریڈیو آپریٹر نے مجھے بلایا اور مسکراتے ہوئے ایک ایڈریس دیا۔ کہ یہاں سے پیسنجر لے کر فلاں کلب میں چھوڑنا ہے اور خاتون پیسنجر نے تمہارا نام لے کر تمہیں بلایا گیا ہے۔ میں دیے گئے ایڈریس پر پہنچا تو وہ کل والا ایڈریس تھا جہاں میں نے خاتون کو اتارا تھا۔ میں نے ڈور بیل بجائی تو کل والی خاتون نے دروازہ کھولا اور میرا نام پوچھا۔ آج وہ کافی تروتازہ اور فریش لگ رہی تھی۔

۔ ”تم نے کل جب پرس سے چابیاں نکالی تھیں تو کرایہ بھی لے لیتے“ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی کہا۔ چابیاں تو مجبوری سے نکالی تھیں کیونکہ آپ کو اندر چھوڑنا تھا۔ اور کرایہ میں اپنا نقصا ن سمجھ کر بھول گیا۔ اور کارڈ اس لئے رکھا تھا کہ آپ اپنا اطمینان کر لیں۔ میں نے یہاں سے کوئی چیز نہیں چرائی میں نے جواب دیا۔ کلب پہنچ کر اسے اتارا تو اس نے بیس پاؤنڈ کا نوٹ نکالا اور کہا۔ کہ کل والا کرایہ بھی ہے اور باقی ٹپ تم رکھ لو۔ میں نے اسے ایک منٹ رکنے کو کہا اور کرایہ کی رقم کاٹ کر بقایا ریز گاری اس کو دیتے ہوئے کہا کہ میں ٹپ نہیں لیتا۔ اس نے بُرا سا منہ بنایا۔ ریز گاری پرس میں ڈالی اور کلب کے اندر چلی گئی۔

اس کے بعد اکثر بیس پر فون آتا۔ میرا نام لے کر بلایا جاتا۔ میں اگر فارغ ہوتا تو چلا جاتا۔ کبھی اسے گھر سے اٹھاتا۔ کسی شاپنگ سنٹر یا کلب میں پہنچاتا۔ کرایہ وصول کر کے ریزگاری واپس کرتا۔ اس پر وہ ہمیشہ چِڑ جاتی۔ ایک شام کو ریڈیو آپریٹر نے بتایا کہ آپ کا سپیشل بلاوہ آیا ہے۔ میں نے ایڈریس دیکھا اور اسے کہا کہ کسی اور کو بھیج دو۔ میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے کہا کہ یار اس وقت کوئی ڈرائیور فارغ نہیں ہے تم ہی چلے جاؤ نا۔

خیر میں چلا گیا۔ بل بجائی۔ اس نے دروازہ کھولا اور اندر آنے کو کہا۔ میں نے اسے کہا کہ میں گاڑی میں بیٹھا ہوں۔ آپ تیار ہو کر آجائیں۔ اس نے پھر اندر آنے پر زور دیا۔ پہلے میں نے سوچا کہیں میں غلطی تو نہیں کر رہا ہوں۔ لیکن مجھے اپنے اوپر بھروسا تھا۔ اس لئے اندر چلا گیا۔ فلیٹ بہت ہی خوبصورتی اور نفاست سے سجا ہوا تھا جو اس میں رہنے والے کے زوق کا آئینہ دار تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا دن میں کتنا کمالیتے ہو۔ میں نے مذاقاً کہا کہ تمہیں پتا ہے کہ عورت سے عمر اور مرد سے اس کی کمائی نہیں پو چھتے۔ میں سنجیدہ ہوں اس نے کہا۔ میں بھی سنجیدہ ہوں میں نے جواب دیا۔ اس نے پرس سے دو سو پونڈ نکالے اور میری طرف یہ کہہ کربڑھائے کہ یہ آپ کی آج کی کمائی ہے اور آج کی شام آپ نے میرے ساتھ گزارنی ہے۔

یہ سن کر میرا کشمیری خون ابلنے لگا۔ میں نے اسے غصے سے کہا۔ کہ میں نہ تو ایسکورٹ ہوں اور نہ ہی پیسے لے کر لوگوں کے ساتھ وقت گزارتا ہوں۔ میں نے پونڈ اس کے منہ پر مارے اور اُٹھ گیا۔ دروازے کی طرف بڑھا تو اس نے مجھے روک لیا اور معافی مانگنے لگی میں نے تمھیں غلط سمجھا۔ اور التجا کی کہ میری پوری بات سن لو پھر بیشک چلے جانا۔ دیکھو یہ لندن ہے یہاں کوئی بھی کسی کے لئے مفت میں کچھ نہیں کرتا۔

میں تمہارا نقصان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ آج میں بہت اداس ہوں اور میرا باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اپنے بارے میں اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں نے اسے رونے دیا اور بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا اچھا چلو پھر کچھ باتیں کرتے ہیں۔ وہ اُٹھ کر گئی اور دو ڈرنک بنا کر لے آئی۔ میں نے اسے کہا کہ میں شراب نہیں پیتا۔ اس نے ڈرنک اُٹھاے اور کچن میں واپس چلی گئی۔ اور تھوڑی دیر میں دو مگ میں کافی لے آئی۔ ایک مجھے پکڑایا اور دوسرا خود لے کر میرے سامنے کوچ پر بیٹھ گئی۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2