کسے بت کہیں، کسے خدا مانیں


ہے تیرے گلستاں میں بھی فصلِ خزاں کا دور۔

یہ کیسا دیش ہے یہ کیسا ملک ہے، ایسا کہاں ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں کہاں بنائی اور توڑی جاتی ہیں۔ تحریک آزادی کیا ایسا ملک بنانے کے لئے چلائی گئی تھی۔ ہمارے اجداد نے اسی وطن کی خاطر جانوں کا نزرانہ پیش کیا تھا۔ ایسے انصاف کے لئے ہم نے نا انصافی کا ڈھنڈھورا پیٹا تھا۔ ایسی مساوات کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ آئے تھے۔

پاکستان بن گیا۔ بن کے ٹوٹ گیا۔ ایک نسل آزادی کی راہ تکتے دنیا چھوڑ گئی۔ ایک نسل آس و یاس کے ساتھ آخری سانسیں لے رہی ہے۔ تیسری نسل امید کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں مگر انہی ناخداوں پہ تکیہ کیے بیٹھی ہے جو کشتی کو کئی بار گرداب میں ڈال چکے ہیں۔ ان ناخداوں نے کپتان کو اس کے کیبن تک محدود کرکے بادبان اپنے کنٹرول میں کر لئے ہیں۔ کپتان کو نہ تو ہواوں کا رخ معلوم ہے نہ ہوا کا رخ دیکھ کر بادبان کا رخ تبدیل کرنے کا تجربہ۔

آج ہمیں اس بات کی سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ہم آزاد قوم ہیں یا غلام۔ کبھی کبھی تو یہ خیال ہمارے گمان کو جکڑ لیتا ہے کہ ہم قوم ہیں بھی؟ ہم اگر آزاد ہیں تو فیصلے ہم پر مسلط کیوں کئیے جاتے ہیں۔ ہماری سوچوں پر پہرے کیوں بٹھائے جاتے ہیں۔ ہمیں انصاف کے صحیح مطالب کیوں نہیں بتائے جاتے۔ ہمارے کانوں میں زرخرید نقاروں کا شور کیوں انڈیلا جاتا ہے۔ ہمیں بار بار کیوں تجربات کی بھٹی میں ڈالا جاتا ہے اور ہماری رائے کی عزت کیوں مجروح کی جاتی ہے۔

ہمیں دشمن سے ڈرا کر اپنوں کے ہاتھوں کیوں مروایا جاتا ہے۔ ہمارا خون اتنا ارزاں کیوں ہو چکا ہے۔ اگر ہم غلام ہیں تو کس کے غلام ہیں۔ ہمارا آقا کون ہے۔ ہماری سوچوں پر کس نے پہرے بٹھائے ہیں۔ ہماری آزادیاں کس نے سلب کر رکھی ہیں۔ اور اگر ہم اس غلامی سے نجات پانا چاہیں تو کس کے خلاف تحریک چلائیں۔ کس کے خلاف جدوجہد کریں۔ کس کو حدف تنقید بنائیں۔ کس کو بت کہیں اور کسے خدا مانیں۔

سالہا سال گزر گئیے۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے گماشتے ہم سے محصولات اکٹھے کرنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔ انگریز کے دور میں وائسرائے آتا تھا۔ ہندستان کے کسی کونے میں چڑیا بھی پر مارتی تھی تو وائسرائے کو علم ہوتا تھا۔ آج وائسرائے کی شکل بدل گئی ہے۔ جیسے محصولات بدلے ہیں ویسے ہی محصولات اکٹھے کرنے والے بدل گئے ہیں۔ اب وزرائے اعظم یا وزرائے خارجہ صرف محصولات اکٹھے کرنے آتے ہیں۔ شوکت عزیز، معین خان اور حفیظ پاشا، سب کا مقصد ایک، سب کا ایجنڈا ٹیکس وصولی میں اضافہ کرکے قرض اتارنا ٹھہرا ہے۔ ایوب خان سے لے کر اب تک یہی کچھ ہورہا ہے۔ جب ان کا کام ختم ہو جاتا ہے، واپس امریکہ یا برطانیہ چلے جاتے ہیں۔ کیا پاکستان کے کسی شہر کا موسم انہیں راس نہیں آتا۔ ان کے اثاثے کبھی میڈیا کی زینت نہیں بنے۔ ایف بی آر ان کا زرخرید غلام ہے۔ نیب ان کو مقدس گائے سمجھتا ہے۔

پاکستان میں عمران خان کی حکومت پاکستان کی تیسری نسل کے لئے امید کی نوید لے کر آئی تھی۔ یہ نسل عمران کو پاکستان کی تمام بیماریوں کا علاج سمجھتی تھی۔ بہت سے ابھی تک یہی گمان رکھے بیٹھے ہیں۔ وہ سب کسی نہ کسی معجزے کی آس اور امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کی امید، ان کی آس ابھی تک بر نہیں آئی مگر وہ مایوس نہیں ہوئے۔ عمران خان کے وسیم اکرم پلس ہاتھ پر ہاتھ دھرے اپنی ہی معزولی کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ اسد عمر اپنی حسرتوں کا ماتم کرتے کرتے گھر جا چکے۔

ناکامی کا پہلا ملبہ کسی اور کے نہیں تحریک انصاف کے اصل اور نر کھلاڑی اسد عمر پر ڈالا گیا ہے۔ کہتے ہیں اسد عمر نے ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ تحریک انصاف کے کس کھلاڑی نے حکومت میں آنے سے پہلے ہوم ورک کیا تھا۔ کس کو حکومت ملنے کا کامل یقین تھا۔ خان کے پاس خود کون سی جڑی بوٹی ہے جس سے پاکستان اپنے پاوں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ ان کا اصل ایجنڈا نواز شریف اور زرداری سے تیس ہزار ارب واپس کرانا تھا۔ یہی نعرہ لے کر وہ انتخابات میں اترا تھا۔

اسی نعرے کی بنیاد پر پاکستان کے معتبر حلقوں نے اسے خوشآمدید کہا تھا۔ عدالتوں نے اس کی مدد کی تھی۔ آٹھ ماہ ہونے کو آئے، ابھی تک ایک پیسہ واپس نہیں آیا۔ خان کا گمان تھا پاکستانی بیرون ملک سے ڈالروں کی بارش کر دیں گے۔ ابھی تک تو کچھ نہیں آیا۔ خان کا خیال تھا گوڈ گورننس ہی سب کچھ ہے لیکن حکومت میں آکر اس نے گوڈ گورننس کے معنی بدل لئے۔ کاروباری طبقے کی مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ کاروبار سمٹ رہے ہیں۔ اصل بات اعتماد کی ہے۔

اعتماد بڑھانے کی بجائے ایف بی آر کو ان کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ ایسے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں کہ افراتفری ملک کا مقدر بن چکی۔ ایسے میں عمران خان کی آخری امید نواز شریف اور زرداری رہ گئے ہیں۔ یہی دونوں اپنی بلی دے کر عمران خان کی عزت بچا سکتے ہیں۔ یہ اگر جیل میں رہیں گے تو عمران خان کی ایگو ذرا سکون میں رہے گی اور پی ٹی آئی کے پر خلوص کارکن کسی حد تک مطمئین ہو جائیں گے۔ بھلے منی لانڈرنگ کا پیسہ واپس آئے نہ آئے نواز اور زرداری کی چیخیں ان کو سکون بخشیں گی۔

مسئلہ مگر یہ ہے کہ عدالتیں اب آزاد ہوتی جارہی ہیں۔ نیب کے کیس کمزور ہیں۔ اور نیب اہلکار اور پولیس مستقبل کو دیکھتے ہوئے دونوں حضرات پر روایتی سختی کرنے میں پس و پیش کر رہی ہے۔ ویسے بھی کچے دھاگے سے بندھی پتنگ زیادہ دیر ہوا کے دباؤ کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور پیچا لگنے سے پہلے ہی ہوا کے دباؤ سے ٹوٹ جایا کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).