پشاور شہر یا حکمران سرائے؟


ارد گرد تیزی سے بدلتے حالات کے ایک ہزارقصے ہیں جن کے بارے میں گذشتہ کئی دن سے اپنا یہ پہلا کالم لکھنے کی خواہش رہی لیکن ان تمام موضوعات پر جب بھی لکھنے کے لئے قلم کو کاغذ پررکھا یا انگلیاں اپنے لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر فٹ کیں تو شہر پشاور سامنے آ کھڑا ہوا اور کہا کہ میرا حق ادا کئے بغیر کیسے کسی اور کی طرف جا سکتے ہو؟ میں نے اسے کہا کہ جلد ہی اس کی باری آئے گی اور اس کی حالت زار پر بھی بات ہوگی بس پہلے وہ مجھے گورنر شاہ فرمان کے اسلام آباد میں انکشافات پر لکھنے دے کہ ہمارے ہاں ناراض لوگوں کی تحریکوں اور مسلسل بگڑتے حالات کے پیچھے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا ایک گٹھ جوڑ ہے کہ خاکم بدہن پاکستان کو کسی طریقے سے ایک ناکام ریاست ثابت کردیا جائے۔

میں نے اسے کہا کہ ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کے عفریت نے کونوں کھدروں میں سراٹھانا شروع کردیا ہے اور کوئٹہ سے لے کر پشاور تک پھر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے پہلے مجھے اس کے بارے میں کچھ لکھنا ہے لیکن شہر اپنے مقدمے پر ڈٹا کھڑا رہا میں نے اسے کہا کہ دیکھو کچھ وقت دے دو، مجھے وزیراعظم عمران خان کی جماعت کی پریشانیوں اور ان کے انتخابات سے پہلے کئے گئے تشنہ وعدوں کے بارے میں لکھنا ہے ابھی، کیونکہ لوگوں نے “ناکامیوں” یا مشکلات کی زد میں آنے والی ٹیم سے زیادہ اب ٹیم لیڈر یعنی خود وزیراعظم اور انہیں لانے والوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے اور ابھی تو وہ جو آئی ایم ایف کے پاس جانے اور نہ جانے کی جنگ تھی اس پر لکھنا ہے۔ روپے کی گری ہوئی قدر، پٹرول، بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور لوگوں کی زندگیوں پر ان کے “نہ پڑنے والے” اثرات کے بارے میں قلم آزمائی کرنی ہے، مجھے تو خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی دوسری بار کی کابینہ کی ناکامیوں پراور اس کے جواب میں اس میں متوقع تبدیلیوں پر کچھ لکھنا ہے، ابھی تو سیاسی جماعتوں کے اندراٹھنے والے مخمصوں، دورنگیوں اور بڑھتی خاندانی سیاستوں پر لکھنا ہے، ابھی تو ان کی کہانیاں لکھنی باقی ہیں جنہیں مختلف سیاسی جماعتوں نے تیار کیا اور پھر ان کے راستے جدا ہوگئے لیکن بات بنی نہیں وہ ناں مانا اور آخرکار مجھے ہی ہارنا پڑا۔

میں نے اس سے پوچھا کہوکیا مسئلہ ہے تمہارا؟ کیوں کام نہیں کرنے دے رہے؟

“تم ہی بتاو کیا میں ایسا ہی تھا جیسا ہوگیا ہوں۔ تم تو یہیں پیدا ہوئے، میری ہی گود میں پلے بڑھے، کیا تمہیں یاد نہیں کہ تمہارے بچپن اور لڑکپن میں کتنا سکون تھا یہاں، لوگ دوردراز سے میرے ہاں تکہ کڑاہی کھانے آتے تھے، پورا ملک میری مارکیٹوں سے کپڑے اور کراکری خرید کر اپنا کام چلاتا تھا اور اب میری کیا حالت کردی گئی ہے۔ کیا میں ایسا تھا جیسا بنا دیا گیا ہوں؟ کوئی کسی کے ساتھ ایسا بھی کرتا ہے جیسا میرے ساتھ کیا گیا؟ “

میں نے کہا صرف تم ہی تو نہیں بدلے اور نہ ہی صرف تم پر دوسرے شہروں کے لوگوں کا بوجھ پڑا ہے دیگر بڑے شہروں کی بھی یہ حالت ہوئی ہے بلکہ پوری دنیا میں اربنائزیشن ہوئی ہے اس اربنائزیشن کے نتیجے میں اس کے چھوٹے بڑے شہرخالی ہوگئے اور لوگ بڑے شہروں کا رخ کرکے وہیں آباد ہو گئے ہاں یہ مانتا ہوں کہ تمہاری زمینوں کو حکومتوں کی ناک کے نیچے قانون سے بالاتر چہیتوں نے باضابطہ منصوبوں کے ذریعے زرعی سے تعمیراتی میں تبدیل کیا اور اب ہاوسنگ سوسائٹیوں کی وجہ سے یہ حالت ہو گئی ہے کہ زراعت کے لئے زمین دستیاب نہیں رہی اور زمین کے نیچے پانی کی سطح بھی گر رہی ہے۔

پشاور نے پھر شکایت کی کہ جب سب نظام ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا تو ایک سیاست کے لئے میرا سینہ چیر کر میٹرو بس کا ایک ایسا بوجھ مجھ پر ڈال دیا گیا جو میں اٹھانے کے قابل ہی نہیں تھا مجھے تو اور بہت سی بیماریاں لاحق تھیں جن کا علاج ضروری تھا لیکن میرا اس بیماری کا علاج کیوں شروع کیا گیا جو ابھی لگی بھی نہیں تھی۔ میرا حلیہ کیوں بگاڑا گیا اور جس نے بگاڑا وہ آج یہاں آتا کیوں نہیں اب وہ سیدھا اپنے شہر سے اسلام آباد ہی کیوں جاتا ہے؟ اسے کہو کبھی آئے تو سہی اور اپنے شروع کئے گئے کارنامے کا انجام تو دیکھتا جائے۔ ویسے بھی بغیر منصوبہ بندی کے شروع کئے گئے کاموں کا یہی نتیجہ نکلتا ہے، میری سڑکوں پر کئی کئی گھنٹے اور کئی کلومیٹر تک ٹریفک جام معمول بن رہا ہے،اچھا تم ہی بتاو ناں کیوں لوگ روزانہ اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کے لئے جلوس نکال کر دیگر لوگوں کی زندگی عذاب بناتے ہیں اور جمہوریت کے نام پر بننے والی حکومتیں ان چھوٹے چھوٹے جلوسوں اور ٹولوں کو کیوں اس اسمبلی کے سامنے دھرنوں کے لئے چھوڑ دیتی ہیں جہاں سے عوام کے مسائل کا اور کوئی حل تو نکلا نہیں ساری جمہوریت انہی جلوسوں کو اجازت دینے کے لئے ہی رہ گئی ہے جوصبح سے شاموں تک سڑکوں کی بندش کا باعث بن کرلوگوں کو اور مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ اور یہ تو بتاو یہ عذاب صرف عام شہریوں کی آبادیوں کو کیوں متاثر کرتا ہے یہ خواص کے بنگلوں کے ارد گرد تو محسوس بھی نہیں ہوتا۔

میرے پاس اس کا کوئی جواب ہوتا تو میں دیتا ہاں البتہ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں اس کے مسئلے سے لوگوں کو آگاہ کر کے انہیں یاد دلاونگا کہ قصور اس شہر کا نہیں ان حکمرانوں کا ہے جو پاکستان بننے کے بعد سے منتخب ہو کر پشاور میں منتقل ہوتے رہے یہاں کے ائرکنڈیشنڈ کمروں میں اپنے مستقبل کو سنوارنے کے منصوبے تو بنائے لیکن اس شہر کو کبھی اپنا نہیں سمجھا ان حکمرانوں میں ہر قسم کی جمہوری و آمر مسلم لیگ، پیپلزپارٹی، اے این پی، دینی جماعتیں، تحریک انصاف اور آمروں کے دورکے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے بلاتفریق شامل رہے ہیں، یہ سب اس شہر کے بنگلوں کو تو پسند کرتے ہیں، اس شہر کے اقتدارکے ایوانوں سے تو ان کو پیار تھا، ہے اور رہے گا یہ اس شہر کے باسی تو بنے لیکن یہ اس شہر کے بن نہ سکے، یہ ہر ویک اینڈ پر”اپنے” گھروں کو جاتے ہیں اور پھر پیر کی صبح اس کے سینے پر مونگ دلنے پشاور آ جاتے ہیں، یہ صرف ان حکمرانوں ہی کا نہیں بلکہ ان سرکاری افسروں و بیوروکریسی کا بھی حال ہے جو رہنے کو تو پشاور کو پسند کرتے ہیں لیکن کبھی اس کے لئے سوچتے نہیں کہ ان پر اس شہر کا بھی کوئی حق ہے ان میں تو وہ بھی شامل ہوتے ہیں جن کو تنخواہ ہی شہروں کو خوبصورت بنانے کی ملتی ہے۔

شہر کے ساتھ اس مکالمے کے دوران احساس ہوا کہ اس کی ایک بھی بات غلط نہیں تھی اور اگر اس کے پاس آنے والے افراد، سیاسی جماعتیں اور گروہ اس کے لئے بھی سوچیں تو یہ سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن کیا کیا جائے ہمیں تو صرف عارضی اور فوری کامیابیاں درکار ہوتی ہیں۔

بشکریہ: مشرق پشاور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).