ہیرا منڈی کے کباب اور روبینہ سے گپ شپ


آدھی رات کا وقت ہے۔ بھوک نے آن ستایا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اور طبیعت بھی کچھ آوارہ گردی پر مائل ہے۔ ہیرا منڈی کے کبابوں کے چٹخارے سن سن کے کان پک گئے تھے سوچا کیوں نہ پھر کباب ہی کھائے جائیں۔ سو ہم ہیرا منڈی پہنچ گئے۔ بازار حسن کی تنگ گلیوں میں ابھی دن کا آغاز ہوا ہے۔ جہاں باقی دنیا سو رہی ہے، وہیں ہیرا منڈی میں دکانیں سجائی جا رہی ہیں۔

 فضا میں پھیلتی دھیمی دھیمی موسیقی، جگہ جگہ کبابوں کی خوشبو، خوبصورت ملبوس زیب تن کیے محرابی بالکونیوں پر کھڑی لڑکیاں دل کو لبھا رہی تھیں۔ علاقے میں پھولوں کی دکانیں جا بجا ہیں۔ رقص کرنے یا جسم فروشی کے پیشے سے منسلک خواتین کے لیے پھول لے کر جانا یہاں کا دستور ہے۔ مغل دور حکومت میں قائم کیا گیا یہ علاقہ موسیقاروں اور رقاصاؤں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ تب یہاں جسم فروشی نہیں ہوتی تھی۔ تاہم یہاں کے رہنے والوں کا کہنا ہے کہ اس بازار کا اصل روپ اب بگڑ گیا ہے۔

 ہیرا منڈی کا اولین نام شاہی محلہ تھا۔ اسے بعد میں ہیرا منڈی، بازارِ حسن اور ریڈ لائٹ سٹریٹ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ ہیرا منڈی کا قیام پندرہویں صدی میں مغل دورِ حکومت میں عمل میں آیا۔ یہاں مغل بادشاہ اپنے شہزادوں کو ثقافت، تہذیب، نشست و برخاست، یہاں تک کہ کھانا کھانے کے آداب سکھانے بھیجا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ رعایا موسیقی سے محظوظ ہونے یہاں کا رُخ کرتی تھی۔ پھر جب اٹھارویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت آئی، تو مہاراجہ کے منھ بولے بیٹے ہیرا سنگھ نے شاہی محلہ میں ایک حویلی تعمیر کی۔ یوں ہیرا سنگھ کی مناسبت سے شاہی محلہ کا نام “ہیرا منڈی” پڑ گیا۔

میں چونکہ ہیرا منڈی کے بازاروں اور تنگ گلیوں سے واقف نہیں تھا۔ احتیاطاً تھانہ ٹِبی سٹی سے ایک عدد پولیس کانسٹیبل کو بھی ساتھ لے لیا۔ مقصد یہ تھا کہ راستہ بھی پتہ چل جائے اور وقت بھی اچھا کٹ جائے۔خوش قسمتی سے کانسٹیبل بھی ٹِبیّ تھانہ کا رہائشی تھا اور وہ اپنے اندر ایک معلومات کا خزانہ تھا۔ جب اسے یہ پتہ چلا کہ میں اوکاڑہ سے ہوں تو کہنے لگا سر آئیں آپ کو ایک اوکاڑہ کی خوبصورت رقاصہ سے ملواؤں۔ اب اس نے یہ کام چھوڑ کر بچوں کو پڑھانا شروع کیا ہوا ہے۔ روبینہ جو اپنی نوعمری میں اوکاڑہ سے یہاں آئی تھی سے ڈھیروں باتیں ہوئیں وہ پھر کبھی سہی۔ دلچسب بات یہ تھی کہ روبینہ نے بی اے کر رکھا ہے اور تاریخ کی کتابیں پڑھنے کی شوقین ہے

روبینہ نے بتایا، طوائفیں نہ صرف خوبصورت ہوتی تھیں بلکہ رقص و موسیقی اور شاعری میں بھی کمال رکھتی تھیں۔ اور خود کو منوانے کے لیے وہ اپنی یہ تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتی تھیں۔ ہیرا منڈی کا کردار برطانوی راج کے بعد تبدیل ہوا جب برطانوی حکمرانوں نے اسے اپنے فوجیوں کے لیے جسم فروشی کے اڈوں میں بدلنا شروع کیا۔ مزید تبدیلی تب آئی جب اسّی کے عشرے میں پاکستانی حکومت نے یہاں اخلاقی اور مذہبی بنیادوں پر پابندیاں لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔ نتیجہ یہ کہ طوائفوں نے جسم فروش کا پیشہ اختیار کر لیا ہے۔ یہاں اب کوئی رقاصہ نہیں رہی۔

ہیرا منڈی میں دو طرح کے لوگ اکثریت میں ہیں۔ ایک کنجر طبقہ ہے۔ اس طبقہ کی عورتیں ناچ گانے سے جڑی ہوئی ہیں۔ دوسرا طبقہ میراثیوں کا ہے۔ یہ کنجر طبقہ کی عورتوں کو موسیقی اور ناچنے کی تربیت دیتے ہیں۔ چاہے کنجر طبقہ کی خواتین جسم فروشی نہ بھی کریں تو بھی انہیں طوائف ہی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ علاقہ موسیقاروں اور میوزک کی دکانوں کی وجہ سے بہت شہرت کا حامل تھا آج کے دور میں استاد طافو شامل ہیں جن کی ساری فیملی آج بھی بھاٹی گیٹ میں رہائش پذیر ہے۔ استاد برکت علی خان، فتح علی خان اور امانت علی خان بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ گانے والی خواتین جن میں فریدہ خانم اور نور جہاں بھی شامل تھیں جنہوں نے استاد سے تربیت حاصل کی۔ پرانے زمانے میں قحبہ خانے پر گانے کا ایک مشہور سٹائل غزل گائیکی تھا۔ یہ زیادہ تجرباتی اور لچکدار سٹائل تھا جو ٹھمری سے ایک قدم آگے تھا۔ اگر آپ اب وہ گھنگرو ڈانس دیکھنا اور غزل سننا چاہیں تو آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔

جب ضیا الحق نے ان سب چیزوں پر پابندی لگائی تو علاقہ میں ایک معاشی قحط پیدا ہو گیا۔ مکان مالک جو کنجروں سے 5000 ماہانہ کرایہ لیتے تھے اب ان کو وقت پر پیسے نہیں ملتے تھے کیونکہ کنجر کمیونٹی کا معاشی سلسلہ بہت آہستہ اور کمزور ہو گیا تھا۔ جب جوتے بنانے والے تاجروں نے زیادہ کرایہ کی پیش کش کی تو مالک مکانوں کو اپنے کرایہ داروں کو زبردستی رخصت کرنا پڑا۔ ایک تیسری اور سب سے مشکل آپشن بھی موجود تھی، یہ چیز سستے داموں جسم فروشی تھی۔ لیکن چونکہ کنجر خاندان کی لڑکیاں فنکاری جانتی تھیں اس لیے انہیں فلم انڈسٹری کا رخ کرنا پڑا۔ باقی لوگ مشہور سنگر بن گئے۔ جو زیادہ مہارت اور ٹیلٹ نہیں رکھتے تھے انہیں علاقہ چھوڑ کر جانا پڑا۔

ہیرا منڈی سے تعلق رکھنے والے تمام آرٹسٹ اور موسیقار ریڈ لائٹ ایریا پر آنے والی موت پر ماتم کناں ہیں۔ جہاں پہلے سے تربیت یافتہ لوگوں کو کوئی نہ کوئی موقع مل جاتا تھا وہیں کچھ نئے موسیقار اور ڈانسر بھی ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ پرانے لوگ ان نئے ابھرتے چہروں کو الزام دیتے ہیں کہ انہوں نے آرٹ کی قیمت گھٹا دی ہے۔ مثال کے طور پر روبینہ جب نئی خواتین ڈانسر کے بارے میں بات کرتی ہیں تو ان کی آواز بھرا جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں: ہمیں بڑے بڑے موسیقاروں نے تربیت دی تھی اور ہم نے ان کی ہر سر اور تال کو سٹڈی کیا تھا۔ ہم ان سروں کے مطابق حرکت کرتے تھے۔ ہم اپنے قدموں سے پیسے کماتے تھے۔ آج کی یہ دو نمبری ڈانسر لڑکیاں فحش ڈانس کر کے پیسے کماتی ہیں۔

روبینہ کوسلام کر کے اجازت لی اور کبابوں والے کے پاس پہنچے۔ کبابوں کا قصہ اور باقی آوارگی پھر سہی

(میرے لئے تمام خواتین ہر لحاظ سے قابل احترام ہیں۔ تحریر میں مجبوراً وہ الفاظ استعمال کرنے پڑے جو اس وقت اس علاقے میں رائج ہیں)

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya