رُل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے


سیاست کے سینے میں دل کہاں۔ ہوتا تو اسد عمر وزارت خزانہ سے کبھی نہ ہٹائے جاتے، آخری وقت تک اسد عمر کا دفاع کرنے والے وزیراعظم اپنے ہی اوپننگ بیٹسمین کو ہٹانے کا فیصلہ کسی طور نہ کرتے۔ وزیراعظم کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے عامر کیانی کبھی یوں بر طرف نہ ہوتے اور مشکل ترین حکومت کے مطمئن ترین ترجمان فواد چوہدری سائنس اور ٹیکنالوجی کے نیوٹن نہ بنا دیے جاتے۔

سیاست کے دماغ کی اصل ‘ڈاکٹرائن’ کافی کامیاب ہے۔ یوں تو پارلیمانی نظام ہے مگر پارلیمنٹ کا عمل دخل محض رونق شونق لگانے تک رہ گیا ہے۔ جمہوریت ہے مگر جمہور کو دال روٹی کی لگن میں مشغول کر دیا گیا ہے۔ منتخب حکومت ہے مگر فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔ سیاست کو گالی اور سیاست دانوں کو داغی بنایا جا رہا ہے۔

اجتماعی جوابدہی کے اصول کے مطابق کابینہ موجود مگر نظام کہیں اور سے چلایا جا رہا ہے، انصرام چنیدہ ٹیکنوکریٹس کو سونپ دیا گیا ہے۔ عملاً ٹیکنوکریٹس کا نظام آ چکا ہے جس کے لیے نہ کوئی ترمیم کرنا پڑی نہ ہی جوڑ توڑ۔ ایسے میں کوئی سیاسی ڈاکٹرائن کی تعریف نہ کرے یہ ممکن نہیں۔

وفاق کی سیاست اور حکمران جماعت میں پھیلی بےچینی ابھی ختم ہوئی نہیں کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں طرز حکمرانی پر اعتراضات اٹھ گئے ہیں۔ بزدار چل نہیں پا رہے یا چلائے نہیں جا رہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہے اور محوِ تماشا ہے جبکہ حکومتی جماعت خود بحران پیدا کرتی ہے اور خود ہی واویلا بھی۔

بزدار صاحب سے کسی نے اعتماد کا ووٹ نہیں مانگا مگر پی ٹی آئی خود ہی ووٹ لیتی نظر آتی ہے۔ شاید بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بزدار کو ہٹایا گیا تو ق لیگ ناراض اور انھیں برقرار رکھا گیا تو ووٹ بنک ہاتھ سے چھن جانے کا خوف۔ حالت یہ ہے کہ پنجاب کے آزاد 26 اراکین جو پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اُن میں سے لگ بھگ 18 وزیراعظم سے کہہ چکے ہیں کہ اُن سے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں ورنہ ۔۔۔۔ سیاست کے سینے میں دل کہاں۔

چوہدری سرور الگ مشکل میں ہیں۔ پنجاب سرکار ق لیگ کی مرہون منت ہے جبکہ گورنری کی کرسی پر نظر کسی اور کی ہے؟ ایک وزارت اعلیٰ اور کئی وزرائے اعلیٰ۔۔۔ میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے کے مصداق پنجاب کی سیاست کا محور فقط معصوم بزدار ہیں کوئی اور نہیں۔

پاکستان کی تقریباً 60 فی صد آبادی رکھنے والے سب سے بڑے صوبے کی پولیس قابو میں ہے اور نہ ہی خاکروب۔ میونسپل کارپوریشن سے لے کر صحت اور پرائس کنٹرول سے لے کر ٹرانسپورٹ تک معاملات صرف پھونکوں سے ہی چل رہے ہیں۔

پی ٹی آئی اراکین پنجاب اسمبلی ایک طرف معاملات غیرمنتخب لوگوں کے ہاتھوں دیے جانے پر چیخ رہے ہیں تو دوسری جانب تھانے تک ان کے قابو میں نہیں کی شکایتیں لگا رہے ہیں۔

اچھی خاصی مملکت خداداد کو ریاست مخولیہ بنانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی والا صوبہ اقتدار کی ریشہ دوانیوں اور رسہ کشی کا شکار ہو رہا ہے، نتیجہ کیا نکلے گا کوئی نہیں جانتا۔

ایک طرف عدلیہ سے محاذ آرائی کا سامان کچھ یوں کیا جا رہا ہے کہ پنجاب بار کونسل قاضی فائز عیسی جیسے معزز جج کے خلاف قرارداد منظور کرتی ہے تو سندھ، اسلام آباد سمیت پاکستان بار کونسل قاضی فائز عیسی کے حق میں قرارداد منظور کر کے ایک واضح لکیر کھینچ رہے ہیں۔

کون ہے جو چاہتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کو بھی متنازع بنا دیا جائے؟ اعلی عدلیہ البتہ اس سازش کو بھانپ رہی ہے جبھی تحریک انصاف سمیت چند اداروں کو اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔

انتظامیہ سخت دباؤ کا شکار، مقننہ غیر مؤثر اور عدلیہ کو قابو میں لانے کی کوئی بھی کوشش ملک کو اس دہانے پر لا کھڑا کرے گی جہاں صرف نقصان ہو گا، کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).