کیا مغرب اور مسلمان حالتِ جنگ میں ہیں؟


نیوزی لینڈ میں سفید قوم پرست اور سفید نسل کی برتری کے قائل ایک انتہا پسند نے جب دہشتگردی کرتے ہوئے معصوم نمازیوں کو شہید کیا تو ہم میں سے اکثریت اِس پر دِل سے دُکھی ہوئی۔ اِس کے ساتھ کچھ پیغام وائرل ہوئے جن میں مغرب کے روئیے پر شکایات کا اظہار کیا گیا۔ ان پیغامات میں باور کرایا گیا کہ مغرب اُس شخص کو انتہاپسند نہیں مانے گا اور ذہنی مریض قرار دے گا وغیرہ۔ کچھ دوستوں کو یہ شکوہ بھی تھا کہ مسلم دہشتگردی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو کیا سفید فام دہشتگردی اور عیسائی دہشتگردی کا لفظ بھی استعمال کیا جائے گا؟

دُنیا نے دیکھا کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اُسے انتہاپسند اور دہشتگرد قرار دیا۔ سفید فام نسل پرستی کو اُنہوں نے پوری دنیا کے لیے ایک مسئلہ قرار دے ڈالا۔ یہ ہمارے اعتراضات کے جواب کے لیے کافی تھا پھر بھی وہ رکی نہیں۔ آگے بڑھی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سر پر دوپٹہ اوڑھا، کالا ماتمی لباس پہنا اور مقتولین کے وارثوں سے تعزیت کے لیے پہنچی۔

انہوں نے کہا وہ شہرت چاہتا تھا میں اُس کا نام بھی نہیں لوں گی۔ ہزاروں لوگوں نے مرنے والوں سے ہمدردی کے اظہار کے لیے مسجدوں کے باہر پھول رکھے۔ وزیراعظم نے نیوزی لینڈ میں خود کار و نیم خودکار اسلحے کی فروخت اور استعمال پر پابندی لگا ڈالی بلکہ اسلحے کو نیم خودکار بنانے والے حصوں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ جمعہ کو اذان سرکاری چینل سے نشر کی گئی۔ وزیراعظم جمعہ کی نماز میں پہنچ گئیں اور مسجدوں میں غیر مسلموں نے نمازیوں کے پیچھے علامتی حفاطتی انسانی زنجریں بنا ڈالی۔ ایک بڑی تعداد میں خواتین نے حجاب لے کر جمعہ کے دن مسجد میں حاضری دی۔ یہ سب اُس نظرئیے کو غلط ثابت کرنے اور اُسے شکست دینے کے لیے کیا گیا جس کی بنیاد پر معصوم انسانوں کی جانیں لے گئیں۔ ذرا سی دیر کے لیے سوچیے کہ یہ سیکولر نیوزی لینڈ کا ردِ عمل ہے اُن کے ہم نسل کی نسل پرست فاشسٹ دہشتگردی پر ایسے میں آپ سفید نسل پرست دہشتگردی کو اُن کا نظریہ کہہ سکیں گے؟

دوسری طرف اگر ہم جو دینِ رحمت کے ماننے والے ہیں، ہم پر اگر اسلامی دہشتگردی کا الزام لگایا جاتا ہے تو اِس کے بھی محرکات ہے۔ ہمارا ردِعمل دہشتگردوں کے اُس طبقے کے حوالے سے جو ہمارا ہم مذہب ہونے کا دعویدار ہے قطعاً مختلف ہے۔ ہم میں سے کچھ تو انہیں ولی اللہ قرار دیتے ہیں (یو ٹیوب پر ایسے ہی دہشتگرد کے حوالے سے آج کل ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے کہ ڈچ صحافی کو انکشاف ہوا وہ ولی اللہ ہے اس کے علاوہ ایک صحافی ٹی وی پر بھی یہی فرماتے ہیں کہ ڈچ صحافی کو انکشاف ہوا وہ ولی اللہ ہے ) ۔ دہشتگردوں کے بارے میں ہمارا اور نیوزی لینڈ کے موقف کا فرق ساری کہانی کہہ رہا ہے۔

وہ صاحب جو ہزاروں خود کُش دھماکوں میں مرنے والے معصوموں کے قصووار ہیں وہ ہمارے لیے ہیرو ہیں اور دوسری طرف نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام اپنے ہم نسل، ہم مذہب دہشتگرد کی حرکت پر نہ صرف دُکھی ہیں بلکہ اُس کے نظرئیے کو شکست دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہم میں سے ایک طبقہ نہ صرف دہشتگردوں کو ہیرو کے روپ میں دکھاتا یے بلکہ نیوزی لینڈ واقعہ پر بھی منفی قسم کے پیغام پھیلائے جا رہے ہیں۔ اُن میں سے ہی ایک پیغام یہ ہے۔ ”اِدھر مسلمان اپنے بچوں کو“ مسٹر چپس اور شیکسپئر پڑھاتے رہے اور اُدھر دشمن کا بچہ جنگ ویانا کا بدلہ لینے آن پہنچا افسوس کہ مسلمان کے بچے کو یہ بھی نہیں پتا خلافتِ عثمانیہ کیا تھی اور ہمیں اپنے بچوں کو مسلم خلفاء، فاتحین وغیرہ کے بارے میں پڑھانا چاہیے تاکہ اُن میں ایمانی جذبہ، جرات اور حالات کا ادراک پیدا ہو وغیرہ ”۔

یہ وہی سوچ ہے جو سفید فام نسل پرستوں میں پائی جاتی ہیں یعنی مسلمانوں اور سفید نسل یا عیسائی مذہب کے درمیان کسی قسم کی جنگ جاری ہے۔ یہ سوچ ایک طرف ٹرمپ اور نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملہ کرنے والے سفید نسل پرست دہشتگرد کی ہے تو دوسری طرف ہمارے انتہاپسندوں کی ہے۔ نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام نے تو اِس سوچ کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اب ہماری امن پسند قوتوں کو بھی اِس سوچ کے خلاف عَلم اُٹھانا پڑے گا۔ آئیے ہم سب مِل کر انسانیت کے دُشمنوں کی سازشیں ناکام بنائیں۔ دہشتگردی خواہ اسلام فوبیا کی وجہ سے ہو یا اِسلام کے نام پر ہم اِس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں کہ دُنیا کا ہر مذہب انسانیت سے محبت سکھاتا ہے اور ہمارا مذہب تو اُن کا مذہب جنہیں اللہ نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اُن پر درود و سلام جو پتھر کھا کر بھی دعا دیا کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).