میں عمران خان کا مخالف کیوں ہوں؟


کیا زندگی میں کامیابی ہی سب کچھ ہے اور اخلاقیات کچھ نہیں؟ وہ بدمزاج ہے، مغرور ہے، ضدی ہے، منتقم مزاج ہے، کانوں کا کچا ہے، ہاں انسانیت کے لئے کچھ کام بھی کیا ہے اس نے جس طرح دنیا کا ہر مشہور آدمی کرتا ہے۔ شہرت، دولت اور حسن اس پر بے تحاشا برسا، اتنا کہ شاید سینکڑوں لوگوں کو کفایت کرتا، اچنبے کی بات ہے اس کے باوجود بدمزاجی، لالچ اور نفرت سے بھرپور شخص۔

یعنی آپ اندازہ لگائیے کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف پچھلے تیس سال کی سیاست میں دو ایسے کردار ہیں جن کی وجہ سے ملک میں بدلاؤ آیا، دونوں روایتی سیاستدانوں میں سے قدرے بہتر ہیں اور ان کے ادوار میں عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور ملتا رہا۔ ان کے مقابلے میں سندھ اور پختونخوا میں ترقیاتی کام کروانے کا رواج نہیں رہا۔ وہ بھی اس بات کو یقیناَ سمجھتا ہے لیکن اپنے تعصب، اپنی منافقت اور اپنے لالچ کی وجہ سے تسلیم نہیں کرتا، بلاوجہ لوگوں کو ان کے خلاف اکساتا ہے، نفرت پھیلاتا ہے، ماحول کو مکدر کرتا ہے، وجہ، اسے پنجاب چاہیے تھا۔

مغرب کے فلسفی کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے۔ اگر آپ اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آپ کو حصول کے ذرائع کے بارے میں پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اصل اہمیت کامیابی کی ہے وہ جس بھی ذریعے سے ملے۔ کامیابی کن ذرائع سے ملی وہ تمام چیزیں چھپ جاتی ہیں۔

لیکن اس روش کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ تمہاری ساری جدوجہد حلال ذرائع اور اخلاقیات کے دائرے کے اندر ہونی چاہیے۔ ظاہری نقصان کو قبول کر لو لیکن اخلاقیات پر کوئی سمجھوتہ نہ کرو۔ نتائج قادر مطلق کے پاس ہیں۔ وہی تمہاری ہار جیت اور اور عزت ذلت کا فیصلہ کرے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اول الذکر یعنی مغربی فلسفے کے پیروکار ہیں اور وہ کامیابی کے لئے ہر حربہ استعمال کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔

انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جائز، ناجائز کی کبھی کوئی پرواہ نہیں کی۔ سب سے پہلے انہوں نے دیکھا کہ ان کو کامیابی کے لئے پنجاب جیتنا پڑے گا، اس لئے وہ پنجاب میں برسر اقتدار جماعت کے درپے ہو گئے۔ پنجاب ایک مثبت طریقے سے بھی جیتا جا سکتا تھا اور وہ یہ کہ خان صاحب کی جماعت پختونخوا میں مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی۔ لیکن خان صاحب نے منفی راستہ چنا۔ انہوں نے نادیدہ قوتوں کی ایماء پر 2014 میں دھرنوں کا آغاز کیا۔

جو اس ملک میں بڑے پیمانے پر، بدتمیزی، بد تہذیبی، دروغ گوئی، منافرت، سستی اور بازاری زبان کے استعمال کا نقطہ آغاز تھا۔ عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے باوجود عمران خان نے اپنی روش کو برقرار رکھا جس پر قاضی فائز عیسیٰ کو کہنا پڑا کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے پھیلائے ہوئے گند پر معافی مانگنا تک گوارا نہیں کی۔ عمران خان نے جانتے بوجھتے معیشت اور کرپشن کے بارے میں غلط اعداد و شمار لوگوں کو بتائے۔ کیونکہ مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا نہیں بلکہ چند افراد کے خلاف عوامی نفرت اور غم وغصے میں اضافہ کرنا تھا۔

اس مقصد میں چونکہ نادیدہ قوتیں ان کی ہم نوا تھیں اور ان کا مقصد اس وقت کی حکمران جماعت کو سبق سکھانا تھا، اس لیے انہوں نے عمران خان کا خوب خوب ساتھ دیا۔ عمران خان جھوٹ بولتا رہا، اپنے مخالفین کو رسوا کرنے کے لئے اس نے ہر اخلاقی حد نہ صرف خود عبور کی بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی اکسایا جنہوں نے اس انداز میں گالم گلوچ کی جس سے پاکستانی معاشرے میں شرفاء کا سانس لینا مشکل ہو گیا۔ اگر تین ارب کی کرپشن کا الزام لگانا ہے تو تین سو ارب کہنے میں کیا مضائقہ ہے، اگر آپ دروغ گوئی کوایک فن سمجھ لیں تو یہ فن آپ کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

اپنے معاشرے کی ساخت، لوگوں کے طرز زندگی سے بے پروا، اگر آپ کرپشن اور چوری کا راگ الاپیں گے اور آپ کو پتہ ہی نہیں کہ ان کے محرکات کیا ہیں تو یہ بالکل اسی طرح ہوگا جیسے ہندوستان دہشتگردی کے محرکات پر بات کرنے کی بجائے صرف دہشت گردی پر بات کرتا ہے۔ عمران خان صاحب یہ مکافات عمل ہے، آپ نے ہر جائز نہ ناجائز ہتھکنڈہ استعمال کیا، یہ نہیں سوچا کہ نتائج تو ذات باری تعالٰی کے پاس ہوتے ہیں۔ کیا معیشت اور امن و امان کی صورتحال پہلے سے آپ کے علم نہیں تھی؟

یقیناَ تھی۔ لیکن بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے کیا آپ نے کبھی سوچا آپ کے لئے ملک کی تقدیر بدلنا آسان کام نہیں ہو گا۔ مقتدر قوتوں نے عوامی احساسات اور امنگوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اقتدار کا ہما آپ کے سر پر بٹھا دیا حالانکہ آپ پچھلے پانچ سال پختونخوا میں اپنی نا اہلی ثابت کر چکے تھے۔ چونکہ آپ عوام کے ذریعے نہیں بلکہ خاص قوتوں کی وجہ سے اقتدار میں آنے اس لئے اب آپ کو ان کا بندھی اور باجگزار رہنا پڑے گا۔

آپ کبھی بھی کھل کر کام نہیں کر سکیں گے۔ آپ نے تھور کی فصل بوئی ہے اس پر آم نہیں لگیں گے۔ جو آپ نے بیجا ہے وہی کاٹیں گے۔ چونکہ آپ کے اندر حمیت نام کی چیز نہیں اس لئے آپ کبھی بھی اپنی غلطیوں پر نادم نہیں ہوں گے، بلکہ مزید غلطیاں کرتے چلے جائیں گے جو بالآخر آپ کی ساری اچھائیوں پر پانی پھیر دیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).