راولپنڈی بھٹو خاندان کے لئے کربلا کیوں؟


گذشتہ تقریباً 6 سال سے قومی احتساب بیورو سرگرم ہے، مگر اس کی سرگرمی صرف حکومت مخالفین تک محدود ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ قومی احتساب بیورو کا ریمورٹ کنٹرول وقت کے بادشاہ سلامت کے پاس رہا ہے، ہمارے پیارے پاکستان میں احتساب کی کہانی پرانی ہے۔ پاکستان میں احتساب نامی بے بی نے پہلے فوجی ڈکٹیٹر ایوب کی بنجر ذہنیت سے جنم لیا سول اور ملٹری بیوروکریسی نے اسے ایبڈو کا نام رکھا، ایبڈو کے ذریعے بے شمار سیاستدانوں کو نا اہل قرار دیا گیا۔

یہ زمانہ 1958 کا زمانہ تھا، ٹھیک 20 سال بعد ایک اور فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء نے احتساب کو سیاسی ہتھیار کے طور استعمال کیا اور فوجی آمریت کی مخالفت کرنے والوں کو کوئی مقدمہ چلائے بغیر سیاست سے بیدخل کردیا، یہ انتہائی گھناونا فعل تھا کہ میاں نواز شریف نے احتساب کو بطور ہتھیار استعمال کرکے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے لئے وطن کی دھرتی تنگ کردی ابھی وہ محترمہ بینظیر بھٹو کو سیاست سے بیدخل کرنے کی مشق پر عمل پیرا تھے تو ایوان اقتدار سے اٹھاکر اٹک قلعے پھینک دیے گئے۔

نئے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے ان کے بنائے ہوئے احتساب بیورو کو قومی احتساب بیورو کا نام دے دیا۔ ریاستی مشینری کی انگلیوں پر طوفان کھڑا کرنے والی میڈیا کے اپنے ہی متعین کردہ معیار رہے ہیں، یہ بھی انصاف کی دیوی کی طرح ہے، بالکل نظریہ ضرورت کی طرح، ارے ہاں یاد آیا ایک افتخار محمد چوہدری نامی صاحب کا نزول بھی ہوا تھا، کہا جاتا تھا کہ انہوں نے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے سامنے انکار کیا اور ڈٹ گئے۔

مگر بہت ہی کم بلکہ آٹے میں نمک کے برابر تجزیہ نگاروں کا موقف تھا کہ سارا ڈرامہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پردے کے پیچھے کوئی ہے جس نے جنرل مشرف کو تیار کیا کہ افتخار چوہدری کو ہٹائیں اور اس نے افتخار چوہدری کو انکار کرنے کی ترغیب دی۔ کیا یہ سادہ سی بات ہے کہ فوجی ڈکٹیٹر کی آئین شکنی کو قطعی طور نذر انداز کر کے انہیں تین سال تک آئین میں چیر پھاڑ کی سند دی جاتی ہے، اور منتخب وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کو آئین پر ثابت رہنے کے جرم میں سزا دی جاتی ہے، یہ بات طے ہے کہ جو لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے تاریخ انہیں گول دائرے کے چکر کاٹنے کی سزا دیتی ہے۔

میاں نواز شریف کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوا ہے۔ ان پر لازم تھا کہ میثاق جمہوریت پر مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہتے مگر وہ ان ہاتھوں میں کھیلتے رہے جن کو سیاستدانوں سے دائمی پرخاش ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے نیب یا اس کے طریقہ واردات سے سخت اختلاف ہے مگر شکوہ میاؐ نواز شریف سے ہے کہ انہوں نے دانستہ طور غیر جمہوری قوتوں کے لئے راستہ کھلا چھوڑا، عمران خان نیازی تو ہیں ہی کٹھ پتلی ان کی ڈوریاں ہلانے والے پردے کے پیچھے ہیں جنہوں نے خان کے اوپر کے خالی چیمبر میں کرپشن کرپشن کا ڈکس ڈال دیا۔

مگر سوال یہ ہے کہ نیب جس ایجنڈا پر عمل پیرا ہے اس کو احتساب کہنا احتساب کی توہین ہے۔ صاف صاف نظر آتا ہے کہ نیب حکومت کا ایک سیاسی ہتھیار ہے جو صرف حکومت کے مخالفین پر استعمال ہو رہا ہے۔ نیب کے زیر حراست نجی تعلیمی ادارے کے پروفیسر کی موت اور اس لاش پر لگی ہتھکڑی چیئرمین نیب کے لئے لمحہ فکریہ تھی مگر ان کی منصفی شاید اختیارات کے کسی کونے میں سو چکی تھی، ایک سابق بریگیڈیئر اسد منیر نے جسٹس ریٹائرڈ کی زیر نگرانی نیب کے ذلت آمیز سلوک کی وجہ سے خود کشی کرلی، بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کی خود کشی نے نہ صرف نیب کی دہشت گردی کو بے نقاب کیا ہے بلکہ اپنے خون کے نشان نیب کے چہرے اور دامن پر چھوڑے ضرور ہیں۔

اس نیب کا اب اصرار یہ ہے کہ آصف علی زرداری کی گرفتاری ضروری ہے، اور ان کے خلاف ٹرائل بھی راولپنڈی میں ضروری ہے۔ آصف علی زرداری کے خلاف راولپنڈی میں ٹرائل پر اصرار سے بات کوئی پرسرار نہیں رہی کہ اس خواہش نما تمنا کس سوچ کو آشکار کرتی ہے، کیا تاریخ کو مسخ کرنے کی طاقت ان میں ہے جو خود کو زمین پر خدا سمجھنے کی جسارت کر رہے ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے بیانیہ کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ راولپنڈی کو بھٹوز کے لئے ہمیشہ کربلا بنایا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا راولپنڈی میں آصف زرداری کا ٹرائل کرنے والے آسمان سے اترے ہوئے فرشتے ہوں گے یا مولوی مشتاق، انوارالحق یا ملک قیوم کا دوسرا روپ؟ قوم ابھی تک نہیں بھولی کہ راولپنڈی میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا سرعام قتل ہوا تھا۔ ان کے تمام قاتل رہا ہو چکے ہیں۔ پاک دامن فرشتوں نے احتساب کی آڑ میں میں محترمہ بینظیر کے لئے ملک کی دھرتی تنگ کردی ان کی تشفی اس وقت ہوئی جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی لاش راولپنڈی سے سندھ روانہ کی گئی۔ اب اس شہر میں آصف علی زرداری کا ٹرائل ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).