مابین: ضیا حسین ضیا کا ناول


من وسلویٰ کے لطف و کرم کی آغوش سے نکل کر خود داری کی کڑی دھوپ میں جلنے کا۔

ٍ مقامِ شکر سے مقامِ فقرکی کھوج کا سفر، اُمیدوں، آرزوؤں، حوصلوں، اُمنگوں وانکار و اقرار کے سلیقوں وقرینوں کے ساتھ کسی فرماں کی طرح اترا۔ اور جنوں کے اس سفر میں نجم آفندی کا شعور بلندیوں کی اس منزل پہ جا پہنچتا ہے کہ وہ رضائے الٰہی وقربِ الٰہی کے تمام مقامات سے ہم کلام ہو کر بھی اپنی غیرت واَنا سے بچھڑنا قبول نہیں کرتا۔ اس کے تخیل وتصور کی پرواز اس درجہ بلند ہو گئی کہ کائناتِ حقیقی میں موجود، موجودات کے نقص کے سنگریزے، آنکھوں کو چھیلتے ہوئے اس کے ذہن و دل میں سرایت کر گئے۔ اب اسے اپنے سوالات کے جوابات درکا ر تھے۔ سکون اور سرمستی سے بالا، نعمت و رحمت سے آگے، اضطراب واضطرار مطلوب تھا۔ اسے اختتام وارتقاء سے گریز کے لمحہ ٔ جاوداں کی تلاش تھی۔

صفتِ تخلیقیت یا ارادۂ تخلیقیت کے اِذن کے سوا جینے کے احساسِ ملامت کے بار آور ہونے کا انتظار تھا۔ اپنے بے پناہ سوالات کے لیے اسے سامعین درکار تھے۔ جو اپنے وقت کے عالی دماغ تھے اور دینی ودنیاوی وعلوم کی معراج کو پہنچے ہوئے تھے۔ نجم آفندی جاننا چاہتا تھا کہ آخر جمالیاتی ذذوق وتخلیق کا بیج جنتِ ارضی پرکون بوئے گا کہ اسے جبر کی دودھاری تلوار سے فردوسِ بریں میں بھی چھٹکارا نہ مل سکا تھا۔

اسے ازل وابد کے بے پناہ امکانات، نشانات، اثبات، اور سوالات میں پوشیدہ اشاروں کے طلسم کدے کے معنٰی جاننے کے لیے عشق کی اس منزل تک رسائی حاصل کرنے کی جستجو تھی جو حدِامکان کے پار تھی اور جس کے لیے یہ جہان کا رسازودِگر چھوٹا پڑ گیا تھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے وجود میں چھپے تخلیقی وعبقری پیمانے کسی اسے Substance سے بنے تھے کہ جس میں محدودیت کا کوئی الگ ہی مفہوم تشکیل پا گیا تھا۔

نجم آفندی کو ازل کی ازسرِ نو تعریف دریافت کرتی تھی۔ آشوبِ ذات کے پار اُترنے کا قلق اسے پابہ رسن کیے ہوئے تھا کہ وہ اقرار کر چکا تھا کہ معرفت وذِکر پر اس کی حدِ ذات واقع نہ تھی اسے سب کچھ موجود میں ”ناموجود“ کی یاد نے بے قرار کر رکھا تھا۔ اسے بقا دربقا کی لا محدود پہنائیوں میں فنا کی تلاش تھی۔ اسے اقرار کے حروفِ دلآویز میں انکار کے ارتعاش کی معدومیت نے بے چین کر رکھا تھا۔ راکھ کریدنا اس کی زیست کا حاصل ٹھہرا کہ چنگاری کے عدم وجود نے اس میں جنون بھر دیا تھا۔

منطق ودانش کے منبر پر اک ادائے دلنواز کے ساتھ دلائل کی شوریدہ سری کے ہمراہ بھیدو اسرار کی عمیق راہداریوں کوکھوکھوجنے جب نجم آفندی، مقامِ قدسی کی بامراد ہستیوں سے مخاطب ومقابل ہوتا ہے تو وہا ں بھی معاملہ بقول اقبال ”دورکعت کے امام“ سے آگے نہیں بڑھتا۔ ایک طرف اک کیف آور خواب ناک زندگی سے نکلنے کے لیے اہالیانِ بہشت کسی طور خود کو تیار نہ کر سکتے تھے تو دوسری طرف نجم آفندی کا زمین سے عشق، اس کی فطرت، اس کا جادہ، اس کی بے تابی، اس کا شعور، اس کا وجود، اس کا فہم، اس کی منزل سب دیوانگی ہو ئے جاتے تھے۔ جنت میں ترامیم وترتیب ِ مقاصد کا ذِکر چھیڑا تو اس کا وجود ناقابلِ برداشت سمجھا گیا۔

جنتی، نجم آفندی کے وجود سے شاکی ہوئے تو دنیاوی کاروبارِ ہستی کے ہنر درہنر ورق کشادہ کرنے کا عزم اس کی عباددت ہو گیا۔ اب اسے اس جرأتِ اظہار کی پاداش میں حشر کا دوبارہ اٹھنا بھی منظور تھا۔ دورکعت کے ا ِ ماموں کے بنائے نصابی سوالناموں اور ذوق وتخلیق کے نمائندگان کے احساسِ ونمو سے عاری، کھوکھلے ذوق نے اس کی سیمابی وموج صفت شخصیت کو عملیت پسندی کی کمان میں کس دیا تھا۔

اب بھروسا تھا تو فقط ذاتِ کبریائی کا۔

غفورورحیم کا کہ اس کا عفودرگز بلندتر ہے

کہ اس کا اذن عظیم ترین ہے۔

اب اسے انتظار تھا۔ اس لمحے کا، جب بقول اقبال:

ع خدا بندے سے خود پوچھے بتا تری رضا کیا ہے

اور بقول نجم آفندی ”جنت کو پورے طور پر مکمل ہونا چاہیے۔ “

اس کشمکش کا انجام یوں ہوتا ہے کہ بالآخر نجم آفندی نے اپنا فیصلہ سنا یا۔ ”میں نے ہر قیمت پر اپنے ذوق اور تخلیق کاری کی صلاحیت کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور قصہ یوں سمٹتا ہے کہ اہلِ فردوس ہاتفِ غیبی کی آواز سنتے ہیں :

”اے اہلِ جنت! آدم کے بیٹے نجم آفندی نے اپنے ذوق، ذہن، تخلیق اور عقل وفن کی کارگزاری کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے“ باپ ”کی طرح ’شجر ممنوعہ“ کا پھل کھا لیا ہے۔ آگاہ رہو! نجم کو اس کے ارادوں کے ساتھ ایک نئے منطقہ پر دوبارہ پھینکا جا رہا ہے۔ مگر اب کی بار شیطان اس کا دشمن نہ ہو گا۔ اس کے ذوق وتخلیق کوخود سے نیا شیطان پیدا کرنا ہو گا۔ یہ اس کے ذوق اور تخلیق کا آئندہ امتحان ہو گا۔ ”

لحظہ لحظہ ز مین و آسمان کے مابین، ذوق، ارادے، کوشش، صلاحیت، آزمائش، شکست و فتح کے اشاروں اور استعاروں سے مزین اس ناول کا آخری باب بالآخر انسان کے عزم ِصمیم کو عظیم تر بناتا ہوا اپنے منطقی انجام پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ وہ دانۂ گندم جو حضرت آدم کے نصیب میں تھا، اسسی پر اب انسان کی بنیادوعظمت کی انتہا کے تمام تر تقاضے اور راستے درج ہیں۔ جوکبھی مقسوم تھا اب ارادے کی پختگی کے ساتھ حاصلِ حرفِ تمنا ٹھہرا۔

یوں مابین کا انجام ایک طرف انسانی آرزو اور زمینی ناتمام خوابوں کی تکمیل کی بشارت سناتا ہے تو دوسری طرف اجتہاد کی روشن راہداری کا دروا کرتا ہے جس کے لیے شاید ہم، ہمارا معاشرہ، ہماری سوچ، ہمارے عالم ابھی تیار نہیں ہیں۔ اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت اہم ہے کہ اس ناول کے لکھنے کے بعد بھی ضیا حسین ضیا شرح وجدہ کی سود در سود پیشیوں سے بچے ہوئے ہیں۔

ناول کا منظر نامہ اور اس کا تسلسل بے پناہ پُر اثر ہے۔ دلائل جاندار ہیں، مد مقابل چت ہوتے ہیں۔ نجم کا سفر قیامت خیز ہے۔ اس کی رفتار، اس کی نظر، اس کا شعور، اس کا انتخاب الفاظ، اس درجہ کمال ہے کہ کوئی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ وہ جو چاہتا ہے کہہ جاتا ہے، اس کی بصیرت وبصارت کے سب قائل ہوتے ہیں۔ اس کشاکش بلاخیز میں اس کے قدم کہیں نہیں ڈگماتے اور بالآخر وہ اپنے لیے پھر زمین کی وہ زندگی حاصل کر لیتا ہے کہ جہاں :

کارِ جہاں دراز ہے۔ ۔ ۔ ۔

اس ناول میں بہت کچھ ہے اور بہت پسندیدہ ہے مگر کیا اس منظر نامے کے تمام تر عناصر اتنے مکمل ہیں کہ زندگی بعدازمزموت کے تصورات سے لے کر بیان کردہ معنی ومطالب، خصوصیات و کیفیات سے لے کر لغوی واصطلاحی مفاہیم تک قاری رسائی حاصل کر سکے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جنت کا تصور، جتنا بلندوبالا، جتنا عظیم، جتنا وسیع، بے پناہ اور بے حد ہے، اس ناول میں اس تصوّر کی محض ایک جھلک یا ایک حصہ ہی آسکا ہو۔ ؟ جب زندگی بعد ازمرگ اور حشر کے امتحان سے سرخرو اور فتح یاب ہونے والے مخصوص گروہ کا تصوّر کیا جاتا ہے تو پھر پورے کرۂ ارض کا یہ گولہ اور کائنات کا پہیہ چرخہ کاتنے والی بڑھیا کی زندگی کے شب وروز سادکھائی دیتا ہے۔

تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ”مابین“ کی جنت میں فقط پاکستان، ایران، افغانستان یا سعودی عربیہ کے کچھ مخصوص لوگ، اپنی مخصوص ذہنیت کے ساتھ خندہ زن ہیں اور دنیا کے باقی تمام ممالک کے لیے جنت ”علاقہ غیر“ ہے؟ کیا صرف چند مخصوص ذات پات کے غلام ہی جنت میں بھی نوازے جائیں گے؟ کیا نجم آفندی کے دلائل، تجربے، مشاہدے اور سوچ کے سوتے بہت محدود نہیں کہ جب پوری دنیا میں قیامت خیز قدرتی وغیر قدرتی آفات سے اہلِ زمین بارہا آزمائشوں سے گزرے تب آفندی کا نکتہ ننگاہ اس قدر چھوٹا پڑ گیا کہ اسے صرف مظفر آباد، مانسہرہ، ایبٹ آباد، اور اسلام آباد کا ہولناک زلزلہ ہی مثال دینے کے لیے یاد رہا؟

کیا عذابوں کا سلسلہ دنیا کے دیگر خطوں پر نہیں گزرا؟ اور گزرا تو پھر نجم آفندی کے ذہنِ تخیل اورتصورِ نظر نے ان اِبتلاؤں کو کیوں کردرگزر کیا؟ عزم و جدوجہد کا مسلسل اعادہ کرنے والا کردار عورت کے وجود کو سمجھنے سے اس درجہ قاصر کہ زمینی حیات کے باب میں بھی عورت کو انسانی تناظر میں دیکھنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ گویا کہ زمین پربھی اس کا وجود آلائش تھا یا اس درجہ غیر اہم کہ بحیثیت انسان عورت کی تصویر کشی کی کوئی قابلِ ذکر صورت نظر نہیں آتی۔

بہر کیف! اپنی ان کج ادائیوں کے باوجود مابین کی انفرادیت، اس کا موضوع ہے، اس کے دلائل ہیں، ابن ِآدم کے ارتقاء کی بلندوبالا خواہش کا نظریہ ہے، بہائم اور چوپائیوں سے بلند ہو کر زندگی گزارنے کا عزم ہے۔ انسانی سربلندی اور آبرو کے لیے

ع تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول

کا بلند آہنگ مقدمہ ہے جو اس سے قبل نہیں لڑا گیا کہ اسے پیش کرنے کے لیے جس تہذیب، فراست، زورِ بیان، فہم، تدبر، دلیل در دلیل، بات کہنے کے سلیقے، موثر پیرائے اور دسترس اور معنی ومفہوم کی ضرورت تھی جوعلامہ ضیا حسین کے علاوہ شاید ہی کسی کے بس کی بات ہو۔

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2