چترال کے اقلیتی ممبر صوبائی اسمبلی پر مولویوں کی یلغار


چترال کہاں ہے؟ پاکستان کے انتخابی منظر نامے کا حلقہ اول۔ اس حلقہ کی ایک شہرت یہ بھی ہے کہ یہاں سے سابق صدر پاکستان پرویز مشرف بھی انتخاب میں حصہ لینے کے آرزو مند رہے۔ کئی سال پہلے ایک آدھ مرتبہ کیلاش قبیلے یا وادی کافرستان کے بارے میں مختلف اخباری میگزین میں اساطیری کہانیاں اور قصے پڑھا کرتا تھا، کالج کے زمانے میں دل مچلتا تھا کہ ہم چترال میں کیلاش قبیلے کا ثقافتی میلہ دیکھنے جائیں۔ پاکستان کے شمالی علاقے میں واقع وادی چترال قدرتی حسن سے مالا مال ہے جبکہ یہاں صدیوں سے آباد ’کیلاش‘ قبیلہ اپنی منفرد تہذیب اور ثقافت کی وجہ سے پاکستان کے رنگا رنگ کلچر میں ہیرے کی طرح دمکتا چلا آرہا ہے۔

لیکن حالات کی سختیوں کے باعث اب کیلاش قبیلے کی قدیم ثقافت کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ قبیلے کے افراد کی تعداد گھٹتے گھٹتے 6 ہزار تک محدود ہو گئی ہے۔ چترال میں ’بمبوریت، رمبور اور بریر‘ نام کی وادیاں بھی شامل ہیں۔ کیلاش قبیلے کے زیادہ تر افراد انہی وادیوں میں آباد ہیں۔ ایک دور میں اس قبیلے کو وادی کا حکمران قبیلہ تصور کیا جاتا تھا۔

کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے، جوبیک وقت ایک مذہب بھی ہے اور ثقافت بھی۔ کیلاش قبیلہ دورِ حاضر میں بھی چترال کے پرامن ماحول میں اپنا وجود برقراررکھے ہوئے ہے۔ کیلاش تہذیب سے متعلق دو نظریات بڑے مشہور ہیں، ایک تصور یہ ہے کہ ان کا تعلق قدیم آریا نسل سے ہے جو کہ اب چترال کے تین دیہات بمبوریت، بیریر اور رمبور میں صرف چار سے پانچ ہزار نفوس پر مشتمل آبادی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ دوسری روایت یوں ہے کہ کیلاش یونانی النسل قوم ہے، جب سکندر اعظم کی فوجیں موجودہ افعانستان سے گزررہی تھی تو یونانی لشکر کے بہت سے ارکان اس خطے میں رہ گئے اور وہ یہاں آکر آباد ہو گئے۔

کیلاش کا سالانہ ثقافتی میلہ پاکستان کی سیاحتی انڈسٹری کا ”حب“ ہے۔ کیا ایسے علاقے میں ترقی نہیں ہونی چاہیے؟ ایسے علاقے کی ترقی تو حکومت کی ترجیحات اولین میں سے ہونی چاہیے۔ انتہائی مستند ذرائع سے موصول ہونے والی خبریں حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ چترال کے قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 1 سے ایم ایم اے کے منتخب ایم این اے، مولاناعبدلاکبر چترالی، کے پی کے یعنی صوبائی اسمبلی کے ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمان، کیلاش قبیلے کے اقلیتی ممبر صوبائی اسمبلی وزیر زادہ کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ وہی روایتی سیاست اور فتوے کی تیز دھار تلوار۔

اقلیتی ممبر صوبائی اسمبلی اپنے علاقے پی پی چترال 1 کے لیے گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق وہ خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بلکہ بلا کسی نسلی، و قبائلی اور مذہبی تعصب کے اجتماعی خدمت کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ کیلاش قبیلے کے افراد سے لے کر عام آدمی تک سب ان کی کاوشوں اور نیک نیتی سے خوش ہیں، سوائے مذکورہ مولویوں کے، کہ انھیں یہ دکھ ہے کہ وہ منتخب نمائندے ہیں، جبکہ وزیر زادہ اقلیتی سیٹ پر سلیکٹ ہو کر آیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وزیر زاداہ کے خلاف باقاعدہ پریس کانفرنسز کی جا رہی ہیں، اور مذہب کا ہتھیار تو ہر وقت بے نیام رہتا ہی ہے۔ وزیر زادہ ایم پی اے اقلیتی نشست، کو ان دنوں یونائیٹڈ نیشن والوں نے بلایا ہوا ہے۔ جبکہ مولویوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ یہ ”خدمت“ ان کے حصے میں کیوں نہیں آئی؟

چترل کے عام افراد اقلیتی ایم پی اے وزیر زادہ کے حسن اخلاق اور ان کی علاقے کے لیے ترقیاتی منصوبوں، نیز ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جبکہ مولوی حضرات اس سارے سیاسی منظر نامے کو مذہب، مسلک اور فتوے کی نظر سے دیکھتے ہیں، جو کسی بھی طور زیبا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقلیتی ایم پی اے ”وزیر زادہ“ کو زیادہ لگن اور جرات مندی کے ساتھ اپنے علاقے، اپنی کمیونٹی اور بالخصوص اپنے وطن کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے۔

کیونکہ انھیں صوبائی اسمبلی میں نشست آئین نے دی ہے، ریاست نے انھیں جو حق دیا ہوا ہے وہ کوئی مولوی، ملا یا فتویٰ گر نہیں چھین سکتا۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ اقلیتیوں کا بھی اس ملک پر حق ہے اور بے شک ان کی قربانیاں بھی ہیں۔ ہاں حاسدوں کے پاس اگر اقلیتی ممبر صوبائی اسمبلی ”وزیر زادہ“ سے متعلق کرپشن، اقربا پروری، مسلی و نسلی تعصب کے حوالے سے کوئی ثبوت ہیں تو وہ انھیں ضرور اسمبلی میں پیش کرنے چاہئیں۔ بہ صورتِ دگر میں سمجھتا ہوں کہ روایتی مولویانہ سیاست ملک کو مزید نقصان اور چترال کو بے حال کر دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).