پاکستان کو اس بحرانی صورت حال سے نکلنا ہو گا


حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں۔ ریاست کا وجود ہی حکومت سے وابستہ ہوتا ہے۔ کوئی ملک دنیا میں ایسا نہیں ہوگا جو بغیر حکومت ہو۔ اقتدار پر کون ہے اور طرز حکومت کیا ہے، دنیا کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ دنیا کو غرض اگر ہوتی ہے تو کسی بھی ملک کی حکومت سے ہوتی ہے۔ اُسی بنیاد پر دنیا کے ممالک ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ ہر قسم کے معاہدے ہوتے ہیں۔ تجارتی، اقتصادی، معاشی، معاشرتی، خارجی اور داخلی معاملات طے پاتے ہیں۔

دنیا کو ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ ملکوں کا طرز حکمرانی کیسا ہے۔ بادشاہت ہے، جمہوریت میں پارلیمانی نظام ہے یا صدارتی نظام ہے، یک پارٹی حکومت ہے یا کثیر الجماعتی حکومت بنائی گئی ہے۔ المختصر دنیا کو کسی ملک کے اندرونی معاملات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی لیکن جو بات دنیا کا ہر ملک ہر دوسرے ملک میں دیکھنا پسند کرتا ہے وہ اس ملک کے عوام کا اطمینان ہوتا ہے۔ اگر کسی ملک کے باسی امن، چین اور سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے غیر یقینی اور بد امنی کی زندگی گزار رہے ہوں تو دنیا میں تشویش کی لہر دوڑنے لگتی ہے۔

دنیا ایک محلے، گاؤں اور شہر کی طرح ہوکر رہ گئی ہے۔ آپ کے پڑوس میں اگر کوئی گھر ابتری، بی چینی اور لڑائی جھگڑے کا شکار ہو تو باقی محلہ لازماً متاثر ہوگا۔ اسی طرح محلوں کا اضطراب گاؤں کے لئے اور بہت سارے محلوں اور گاؤں کی بیچینیوں کی لپیٹ میں شہر بھی لازماً آئیں گے اور یوں پورا ملک انتشار کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ بالکل اسی طرح کسی ملک کے بہت ہی خراب حالات پہلے تو پڑوسی ممالک کو اذیت میں مبتلا کریں گے اور پھر رفتہ رفتہ دنیا اس کی لپیٹ میں آنا شروع ہوجائے گی۔ اسی لئے دنیا بے شک کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت تو نہیں کیا کرتی لیکن اگر معاملات ایک حد سے تجاوز کرجائیں تو پھر دنیا کی مداخلت کسی حد تک ضروری ہوجاتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے نقطہ نظر سے موجودہ دنیا میں بھی بہت سارے ممالک ایسے ہیں جو بہت بری طرح اندرونی انتشار کا شکار ہیں جس کی وجہ سے دنیا کے وہ ممالک جن کو طاقتور ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، وہ ایسے ممالک میں اپنا اثرورسوخ دکھا کر اپنے تئیں اس بات کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ کسی طرح ان ممالک میں انتشار کی کیفیت ختم ہوجائے اور ملک میں رہنے والے امن و سکون کی زندگی گزار سکیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہی سہی لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ ممالک جو اپنی قوت اور بے پناہ وسائل کی وجہ سے کسی بھی ایسے ملک کی قسمت بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کے معاملات اس کی اپنی دسترس اور قابو سے باہر ہوجائیں، وہ متاثرہ ملک کے مفادات سے زیادہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

پھر ہوتا یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں اور شامل ہونے والا ہر ملک اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ طرز عمل ہے جس کی وجہ متاثرہ ملک کے حالات ٹھیک ہونے کی بجائے اور بھی زیادہ دگر گوں ہوجاتے ہیں اور وہ مزید تباہی و بربادی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اِس کی زندہ و جاوید مثال افغانستان ہے جس میں دنیا کی مداخلت نے پورے افغانستان کو کھنڈرات میں بدل کر پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا ہے۔ وجہ وہی ہے کہ جو ممالک افغانستان کے معاملات میں ٹانگ اڑا کر بیٹھے ہوئے ہیں وہ سب کے سب اپنے مفادات کو افغانستان اور افغان عوام کے مفادات سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

پاکستان بھی آج کل ایک بہت مشکل دوراہے پر کھڑا ہے۔ باربار حکومتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ہر آنے والی حکومت کی مسلسل نا اہلی ریاست کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ملک کے عوام تقسیم در تقسیم کا بری طرح شکار ہو چکے ہیں۔ کسی زمانے میں مذہبی و مسلکی تقسیم کا معاملہ ہی ہوا کرتا تھا لیکن اب تو عالم یہ ہے کہ سیاسی گروہ بندی مذہبی و مسلکی گروہ بندی سے کئی ہاتھ آگے نکل چکی ہے۔ مذہبی بنیادوں پر ہر فرقہ دوسرے کو کافر کہہ کر ان کے ساتھ ہر غیر انسانی سلوک کرنے کا جواز پیدا کرتا تھا تو اب ہر سیاسی گروہ دوسرے کے خلاف غداری کی اسناد تقسیم کرتا پھر رہا ہے۔ ایک دوسرے سے اتنی دوریاں پیدا ہو چکی ہیں کہ کسی بھی لمحے کوئی بھی سنگین حادثہ جنم لے سکتا ہے۔

پاکستان میں اب سے قبل جو بھی حکمران آیا، وہ کسی نہ کسی شکل میں خود پاکستان کی سیکیورٹی کے لئے مسئلہ بنا رہا لیکن موجودہ حکومت کئی لحاظ سے پاکستان کی سیکیورٹی کے لئے تو مسئلہ بن ہی رہی ہے ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے وقار اور عزت کے لئے بھی مسئلہ پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اندرونی حالات ہاتھوں سے نکلتے جارہے ہیں اور سمجھ میں نہیں آرہا کہ آئندہ چند ماہ بعد پاکستان کس مقام پر کھڑا نظر آئے گا۔

حکومت کا سب سے بڑا عہدہ وزارت عظمیٰ کا ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس عہدے پر فائز رہنما ایک تسلسل کے ساتھ، سہواً ہی سہی، اپنی گفتگو میں ایسی لایعنی باتیں کہہ جاتا ہے جس کا دفاع بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ان باتوں میں کچھ باتیں تو وہ بھی ہوتی ہیں جن کی توقع بہت ہی کم علم رکھنے والوں سے بھی نہیں کی جاسکتی۔ ملک کے بہت سارے معاملات بجائے سلجھنے کے مزید الجھنوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور خود حکومتی ٹیم کسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔

الیکشن سے قبل اور بعد کی بہت ساری باتیں کچھ ایسی بھی ہیں جس کی وجہ سے ملک کے ایک مقتدر ادارے کے ملوث ہونے کا شبہ بھی پیدا ہوتا ہے جس پر اندرون ملک اور بیرون ملک سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ یہ اٹھائے جانے والے سوالات ادارے کے لئے تو نقصان دہ ہیں ہی خود ریاست کے لئے بھی کوئی اچھی نوید نہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے پاکستان کسی بھی وقت بیرونی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو ان حالات سے بہر صورت باہر نکلنا ہوگا۔ جتنی جلد پاکستان اس صورت حال سے باہر آجائے اچھا ہے بصورت دیگر مفاد پرست دنیا ان حالات سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).