اقلیتی نمائندگی: الیکشن، سلیکشن یا کچھ اور؟


ہمارے کچھ مسائل موسمی ہیں جن پر بحث صرف ان کے موسمی دنوں میں ہی ہوتی ہے، عام دونوں میں اس پر نہ تو کوئی بات کرتا ہے اور اگر ہو بھی تو وہ کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔ اس ہی طرح کے مسائل میں سے ایک مسئلہ اقلیتی طرز انتخاب بھی ہے، الیکشن کے دونوں میں ہر طرف اور خصوصاً سوشل میڈیا پہ ایک طوفان برپا تھا کوئی مخلوط طرزِ انتخاب کا حامی تھا اور کوئی جداگانہ طرز کو اہمیت دے رہا تھا۔ لیکن انتحابات کے مکمل ہوتے ہی وہ بحث بھی ختم ہوگئی اور شاید اگلے انتخابات تک ختم ہی رہے گئی لیکن اس بحث سے ایک نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کی بڑی تعداد اپنے طرز انتخاب سے مطمئن نہیں اور اس میں تبدیلی کی خواہاں ہیں، لیکن کون سا طرز اقلیتوں کے لیے بہتر ہو گا اس پہ بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ پرانے اور موجودہ طرز انتخاب کا موازنہ کر لیتے ہیں۔

1979 سے 2002 تک اقلیتوں کے لیے الیکشن کا نظام تھا جس میں اقلیتی برادری کے لوگ اپنے نمائندوں کو ووٹ کے ذریعے سے اسمبلیوں میں بھیجتے تھے۔ اس نظام کے حامیوں کا آج بھی دعویٰ ہے یہ نظام ہی درست تھا اور آج بھی اقلیتوں کو اس ہی طرح کے سسٹم کی ضرورت ہے جس میں وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب خود کر سکیں اور جمہوری عمل میں شامل ہو سکیں لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ضیاء الحق کے دور میں بنائی گئی ان نشستوں کا مقصد احمدی کمیونٹی کو الگ کرنا تھا۔

اس نظام کا سب سے بڑا مقصد مذہبی شناخت کے عنصر کو ذرا مزید تقویت دینا تھا اس طرز انتخاب کا سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ اقلیتوں کے جداگانہ انتخاب سے علیحدگی کی نئی ساسیت وجود میں آئی، اب چونکہ ایک اقلیتی رکن اسمبلی کی سیاسی، سماجی اور معاشی حیثیت کبھی بھی ایک اکثریتی رکن کے برابر نہیں ہو سکتی تھی نتیجہ یہ نکلا اقلیتی ووٹوں سے منتخب کردہ اراکین کی موجودگی میں ہی اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین بنائے گئے۔ نہ تو وہ اس کو روک سکے اور نہ ہی وہ اقلیتوں کی موثر آواز بن سکے اور اقلیتیں مین سٹریم سے باہر ہوتی گئیں۔

دوسرا سب سے بڑا مسئلہ حلقہ بندیاں تھیں قومی اسمبلی کے انتخابات کے لئے اقلیتی امیدواران کے لئے پورا پاکستان ان کا حلقہ تھا اور امیدواران کو پورے پاکستان میں کمپن کرنا پڑتی۔ اگر آج بھی اقلیتوں کے لیے الگ حلقہ بندیاں کر دی جائیں تب بھی ان بڑے بڑے حلقوں میں کمپن کرنا ایک کٹھن اور مہنگا سودا ہوگا، اتنا مہنگا کہ ایک عام مڈل کلاس کا آدمی الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہ سکے گا۔

دوسرا اور موجودہ طرز انتخاب جس کو عام اصطلاح میں سلیکشن کہا جاتا ہے۔ انگریزوں نے اس ہی طرز کے نظام کی بنیاد گورنمنٹ ایکٹ آف انڈیا، کے تحت رکھی تھی اور اس کا مقصد محروم طبقات کی حالت زار کو بہتر کرنا اور ان کو قومی دھارے میں شامل کرنا تھا۔ ایس پی سنگھا بھی اس ہی نظام سے منتحب ہوئے تھے۔

2002 سے رائج، اس نظام میں اقلیتی ووٹر اپنے نمائندوں کو ووٹ نہیں کاسٹ کرتے بلکہ سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے پرارٹی لسٹ کے مطابق اپنے اقلیتی اراکین کو نامزد کرتی ہیں اور اسمبلیوں میں ہر پارٹی کو اس کی نشستوں کے تناسب سے اقلیتی اراکین ملتے ہیں۔

نیز وہ الیکٹ ہو کہ نہیں سلکیٹ ہو کر آتے ہیں چونکہ پارٹی کی ایما پہ ان اراکین کا انتخاب ہوتا ہے اس لئے عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ پارٹی کے نمائندے زیادہ اور عوامی نمائندے کم ہیں، لیکن اس ہی نظام سے آئے ہوئے شہباز بھٹی مرحوم نے اقلیتوں کے لئے جاب کوٹہ منظور کروایا۔ 11 آگست کا دن اقلیتی دن کے نام سے منسوب کروایا۔ دوسرا چونکہ اس نظام میں الیکشن کی شرط نہیں نتیجتاً بہت سے لوگ جو کہ مڈل کلاس اور لوئر کلاس سے تعلق رکھتے تھے پارلیمان کا حصہ ہیں۔ اقلیتوں کو قومی دھارے میں آنے کا موقع بھی حصہ مل رہا ہے۔ اقلیتی تہوار حکومتی سطح پر منائے جانے لگے ہیں اور محروم طبقات کو بھی اوپر آنے کا موقع مل رہا ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود اس نظام میں بھی بہت ساری کمزوریاں موجود ہیں۔ مثلاً چند سو لوگ اکٹھے کرنے شاید کسی رکن اسمبلی کے بس کی بات نہ ہو، کیونکہ وہ اپنی پارٹی کے نمائندے ہیں نہ کہ اقلیتوں کے عموماً ان لوگوں پر پارٹیاں اپنا شفقت والا ہاتھ رکھتی ہیں جو پارٹی کو کروڑوں روپے چندہ دے سکتے ہوں اور اس کی مثال آپ کو ہر دور میں ملے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).