پاکستان میں کتاب کلچر کا زوال


گزشتہ روز ( 23 اپریل کو) پاکستان سمیت دنیا بھر میں کتاب اور کاپی رائٹ کا عالمی دن منایا گیا۔ یہ دن منانے کا مقصد قاری کو اچھی اور معیاری کتاب دینے والے تخلیق کار کی عظمت کو سلام پیش کرنا، معیاری کتاب کے مطالعے کو قاری میں جس قدر ممکن ہو سکے عام کرنا اور معیاری کتب کی اشاعت کو فروغ دینا تھا۔ کتاب جہاں انسان کے علم اور ذہنی استعداد میں اضافہ کرتی ہے وہاں یہ اس کی بہترین دوست اور تنہائی کی رفیق بھی ہے اور آدمی کی روحانی تسکین کا باعث بھی بنتی ہے۔

پاکستان میں کم شرح خواندگی اور مہنگائی کے علاوہ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث بھی کتاب کی اہمیت متاثر ہوئی ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں محض 27 فیصد عوام کتب بینی کے شوقین ہیں۔ یوں تو بڑی سرعت کے ساتھ سوشل میڈیا نے کتاب کا مرتبہ ختم کرکے اپنی جگہ بنا لی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ BOOK (Best Object Of Knowledge) کی اہمیت ہمیشہ دائم آباد رہے گی کیونکہ سوشل میڈیا پکا پکایا اور بنا بنایا مواد فراہم کر رہا ہے جس سے طالب علم میں تحقیق، سوچ بچار، تلاش ذرائع، تجسس اور تنقید کی فیکلٹی کمزور ہو کر رہ گئی ہے۔

عہد گم گشتہ میں جب آنہ لائبریریاں آباد تھیں۔ ان کی معرفت جاسوسی، تاریخی یا انگریزی سے ترجمہ کردہ مہماتی ناولوں کا خاصا زور تھا مگر اب نہ وہ لائبریریاں رہیں نہ کتابیں اور نہ ان کے باذوق قارئین۔ زمانے نے ایسی کروٹ بدلی کہ کتاب کلچر اور مطالعے کی روایت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دھند میں سسک کر رہ گئی۔ کم و بیش یہی حشر سکولوں اور کالجوں کی لائبریریوں کا بھی ہوا کہ فنڈرز کی کمی اور غیر ذمہ دارانہ استعمال کی وجہ سے ان میں نئی کتابوں کا آنا تقریباً بند ہو گیا ہے۔

یہ ظلم صرف تعلیمی اداروں کی ان لائبریریوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ ہر اس سرکاری محکمے نے جس کا تعلق کسی بھی طرح کتاب سے نکل سکتا تھا، اس لوٹ مار میں برابر کا حصہ لیا۔ کاغذ اور طباعت کے میٹریلز پر طرح طرح کے ٹیکس لگائے گئے اور محکمہ ڈاک کو غالباً خصوصی ہدایت کی گئی کہ اپنا سارا نقصان کتابوں کی ترسیل سے ہی پورا کرے۔ بیرون ملک کتاب بھجوانے کے لئے ڈاک کا خرچہ اس کی اصل قیمت سے تقریباً تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔

اندرون ملک بھی صورت حال ایسی ہے کہ اس زور افزوں ڈاک خرچ کی بڑھتی شرح کی وجہ سے یا تو بہت سے ادبی رسائل و جرائد بند ہو گئے یا انہوں نے (بلامعاوضہ) لکھنے والوں کو پرچہ بھجوانا بھی بند کر دیا ہے کہ یہ اب ان کے وارے میں نہیں آتا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ محکمہ ڈاک نے اخبارات و جرائد کی سالانہ رجسٹریشن فیس میں بھی سو فیصد اضافہ کر دیا۔

سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ”کباب کلچر“ نے بھی کتاب کلچر کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اب زیادہ تر کتب خانے ویران نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی ماری نئی نسل اب ”بک“ کی بجائے ”فیس بک“ کی زیادہ رسیا نظر آتی ہے جبکہ بڑے شہروں میں ”بک سٹریٹ“ کی بجائے ”فوڈ سٹریٹ“ کا قیام بھی ارباب بست و کشاد کی اولین ترجیح بن کر رہ گیا ہے۔ اچھی کتابیں انسان کو مہذب بناتی اور اس کی شخصیت کو وقار عطاکرتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ آج بھی بیشتر خواتین و حضرات کے نزدیک کتابوں پر رقم خرچ کرنے سے کہیں بہتر کپڑوں، جیولری اور دیگر مادی اشیاء پر رقم خرچ کرنا اہم ہے لیکن یہ تمام چیزیں عارضی اور ضرورت کے تحت استعمال کی جانے والی اشیاء ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی طرز پر ایک قومی پالیسی تشکیل دے کرکتاب کی افادیت کو قومی یکجہتی کے لئے استعمال کیا جائے کیونکہ معاشرتی ہم آہنگی کے لئے اس سے سہل اور موثر طریقہ کوئی اور نہیں۔ اس کے علاوہ حکومت یونین کونسل کی سطح پر لائبریریوں کا قیام عمل میں لائے جبکہ کتب بینی کے فروغ کے لئے بنگلہ دیشی طرزپر موبائل لائبریریاں قائم کرنے کے علاوہ تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں ایک پیریڈلائبریری کا رکھا جائے تاکہ کتاب کی قدرومنزلت اور لائبریری کی اہمیت کے حوالے سے نئی نسل آگاہی حاصل کرسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).