صاحبہ: زبان نہیں پھسلتی، دماغ کھسکا ہوا ہے


ہمارے وزیراعظم صاحب خیر سے شروع ہی سے زبان درازی، الزام تراشی اور دشنام بازی میں کچھ کم نہ تھے مگر سیاست میں آمد کے بعد جناب شیخ رشید، فواد چودھری اور فیاض الحسن چوہان جیسے نابغہء روزگار مصاحبین کی صحبت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا اور ماشا اللہ ان کاہر بیان اور خطاب زہر میں بجھے ہوئے تیر کی مانند ہوتا ہے۔ زہر اگلنے اور دشنام گوئی میں رفتہ رفتہ ان کی مہارت سب کو پیچھے چھوڑتی چلی جارہی ہے۔ جاپان، جرمنی کی مشترکہ سرحدوں اور ایران میں پاکستان سے گئے دہشت گردوں کی کارروائیوں کے اعترافی بیان کی صدائے بازگشت ابھی فضا میں تھی کہ موصوف نے وانا میں جلسہء عام میں خطاب کے دوران ایک مرتبہ پھر گل افشانی فرمائی ہے۔

انہوں نے طنز و تعریض سے مامور انتہائی معنی خیز انداز میں جناب بلاول بھٹو زرداری کے لیے صاحبہ کا لفظ استعمال کیا اور پھر داد طلب نظروں سے مجمعِ عام کی طرف دیکھا۔

کچھ لوگ ان کے اس تمسخرانہ اور بچگانہ اندازکو بھی حسب معمول زبان کی پھسلن سے تعبیر کر رہے ہیں مگر اس لفظ کی ادائیگی کے دوران ان کی باڈی لینگؤیج (زبانِ حال) اس بات کی واضح غمازی کر رہی تھی کہ انہوں نے یہ لفظ نیتاً اور ارادتاً استعمال کیا ہے۔ کسی بھی زبان کا ہر لفظ ایک بھرپور تہذیبی، تمدنی، معاشرتی اور روایتی پس منظر رکھتا ہے۔ الفاظ و تراکیب ہوں یا تشبہیات و استعارات ہوں، صنائع بدائع ہوں یا علامات و اصطلاحات ہوں، ضرب الامثال ہوں یا محاورات و اشارات ہوں ;انہیں بولنے اور سننے والے ان سب کے تہذیبی پس منظر سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ذرا ان کے اس لفظی اشارے کو شیخ رشید کے بلاول کے لیے کسی جانے والی پھبتی ”بلّو رانی“ کے منظر نامے میں رکھ کے دیکھیے، سب سمجھ میں آجائے گا کہ جناب وزیر اعظم بلاول کے حوالے سے کیا کہنا چاہتے تھے۔

جوں جوں عمرانی حکومت کی نا اہلی اور بدترین کار گزاری پر مہر تصدیق ثبت ہوتی جارہی ہے توں توں سربراہِ حکومت سمیت ہر کل پرزہ سراپا بدزبان بنتا جارہا ہے۔ جناب وزیراعظم اور ان کی کابینہ بلاول بھٹو کی تنقید کا مؤثر اور بھرپورجواب کارکردگی سے تو دے نہیں سکتے مگر زبانِ طعن کا استعمال خوب کر رہے ہیں۔ جناب وزیر اعظم اپنا نہیں تو اپنے منصب کاہی کچھ خیال کر لیں۔ انہوں نے بلاول کے مخصوص لب و لہجے اوراندازِ گفتار کا ہی نہایت پست انداز میں مضحکہ نہیں اڑایا ہے بلکہ صنفی امتیاز پر مبنی رکیک انداز بیان اختیار کر کے ایک مخصوص برادری کی تحقیر بھی کی ہے۔

بلاول بھٹو کی تنقید ہمیشہ حکومتی پالیسیوں پر ہوتی ہے۔ ان کے لہجے میں کبھی کبھار تلخی و ترشی ضرور آ جاتی ہے مگر انہوں نے اتنی پست سطح پر آ کر کبھی سیاسی مخالفین کو اس طر ح نشانہ نہیں بنایا اور نہ اس طرح ذاتیات پر اترے ہیں۔

اگر گستاخی نہ ہو تو جناب وزیراعظم سمیت ہر گھر میں ایک سے زائد صاحبہ موجود ہے جسے ہر لحاظ سے عزت ووقار حاصل ہے۔ ہم جناب وزیراعظم سے بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر یہ انداز تخاطب انہوں نے جان بوجھ کے استعمال کیا ہے (جس کے زیادہ امکانات ہیں ) تو فوراً بلاول سمیت پوری قوم سے معافی مانگیں اور اگر زبان کی پھسلن ہے تو بھی اس کی وضاحت کریں ورنہ قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو گی کہ یہ ان کی زبان پھسلنے کا معاملہ نہیں بلکہ ان کے دماغ کے کھسکنے کا مسئلہ ہے۔

لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سو بگڑی خبر لیجیے دہن بگڑا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).