کپتان کلہاڑے کی تلاش میں


لگتا ہے کہ عمران خان پاؤں پر مارنے کے لئے کلہاڑا تلاش کر رہا ہے۔
کچھ بھی تو ٹھیک نہی جا رہا۔ معیشت گیلے صابن کی طرح ہاتھ سے پھسلتی جا رہی ہے۔ کاروباری حضرات تبدیلی کا زہر پینے کے بعد کسی تریاق کی تلاش میں ہیں۔ بیرونی سرمایہ کار وزرا کے احمقانہ بیان سن کر جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ دوست ممالک کے مالی امداد کے وعدے کسی کھلنڈرے نوجوان کے لڑکی سے شادی کے وعدے کی طرح نکلے۔ ڈالر اسد عمر کے قد سے بھی اونچا ہو چکا اور روپیہ ہماری مجموعی اخلاقی حالت سے بھی نیچے گر چکا ہے۔

ریونیو کلیکشن بھی قربانی کی کھالوں کی کلیکشن کی طرح کمترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ لوٹی دولت واپس لانے کا دعویٰ کشمیر کی آزادی تلک ملتوی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ لا اینڈ آرڈر کے منہ پر تمانچہ بلوچستان میں ہونے والے حالیہ دو واقعات نے جڑ دیا۔ ساہیوال سانحہ پر مجرمانہ خاموشی نے ثابت کر دیا کہ تحریک انصاف سے انصاف کا فاصلہ جرمنی سے جاپان کے بارڈر جتنا ہی ہے جسے کھینچ تان کے قریب لانے کی کوشش تو کی گئی لیکن بات بنی نہی۔

نواز شریف اندر ہو کر بھی باہر ہے اور عمران خان کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ زرداری کی مسکراہٹ ”کیچ می آف یو کین“ کی طرح عمران کا منہ چڑا رہی ہے۔ بیگانے تو پہلے ہی بیگانے تھے وہ پتے بھی ہوا دینا شروع ہو گئے جن پر تکیہ تھا۔ اور بے اعتنائی کا سلسلہ اسد عمر جیسے رفیق کی قربانی کے باوجود ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ خارجہ محاز پر ایران میں دیا گیا بیان اس بم کی طرح ہے جس کے فیتے میں آگ لگ چکی اور اب اسی فیتے پر انڈین میڈیا بیٹھا پھونکیں مار رہا ہے۔

مہنگائی نے تبدیلی کا مزاج بھی تبدیل کر دیا ہے۔ ادویات، بجلی، پیٹرول، گیس اور ضروریات زندگی میں ہوشربا مہنگائی نے پارٹی کے ٹائیگرز کو بھی گوشت کی بجائے گھاس کھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہر وزیر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھا ہے۔ پارٹی میں بغاوت کے آثار نمایاں ہیں۔ چوہدری سرور جیسے موقع پرست چند دنوں کے مہمان لگتے ہیں۔ غلام سرور بوڑھی معشوق کی طرح روٹھ کر گھر بیٹھے ہیں۔ شیخ حفیظ کی مشیر خزانہ تقرری اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کے مترادف ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں کی آس میں بیٹھے نوجوانوں کو پہلے انڈہ یا مرغی جیسے لا ینحل مسئلے کی دریافت پر لگا دیا گیا ہے۔ عمران کا وسیم اکرم ہر گیند پر چھکا کھا رہا ہے لیکن کپتان ڈھیٹ بن کر اسی سے گیند بازی کروا کر اپنی ٹیم ڈبونے پر مصر ہے۔ لیکن آخر کیوں؟

کچھ بھی تو موافق نہیں لیکن کپتان کا لہجہ دن بدن سخت سے سخت کیونکر ہو رہا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ اسد عمر کو تو کارکردگی کی بنا پر فارغ کیا جائے لیکن بزدار کو اوئے بھی نہ کہی جائے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ان ناموافق ترین حالات میں بھی کپتان جیسا ذی شعور حالات کو سنبھالنے کی بجائے اپنی بدزبانی اور غیر ذمہ دارانہ رویے سے حالات مزید خراب کرتا جائے؟ اور آخر کپتان آئے روز این آر او نہ دینے کا اعلان کس کو سنانے کے لئے کیے جا رہا ہے؟

تو جواب ایک ہی بنتا ہے۔ کپتان بھی اب سیاسی شہید بننا چاہ رہا ہے۔ اسے احساس ہو گیا ہے کہ پارٹی از اوور۔ اسے یہ بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ گندہ ہو نہیں رہا، اسے گندہ کیا جا رہا ہے۔ اس کی حیثیت شطرنج کی بساط پر اس پیادے کی سی ہے جسے صرف بادشاہ کے لئے ترغیب کے طور پر استعمال کیا جانا ہو۔ اسے یہ بھی پتا ہے کہ اس کی حکومت کا جبراً خاتمہ ہی اسے اور اس کی پارٹی کو ایک نئی زندگی دے سکتا ہے۔ لہذا کپتان اب پاؤں مارنے کو کلہاڑے کی تلاش میں ہے۔ لیکن اپوزیشن رستے میں کلہاڑا تو کیا، کانٹا تک نہیں آنے دے رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).