جنگ کا چہرہ بدصورت ہوتا ہے


یکم جنوری سن انیس سو ترانوے کی بات ہے۔ یہ خادم یارِ عزیز اللہ بخش کے ہمراہ سبی کے دیہات میں دو ہفتے کے سرکاری قیام کے بعد واپس گھرلوٹ رہا تھا۔ اگرچہ دفتر کی جانب سے نئی نویلی ہائی لکس گاڑی مہیا تھی، لیکن جوش جوانی میں ترنگ اٹھی کہ درہ بولان کا حسین سفر موٹر سائیکل پر کیا جائے۔ سو دونوں نے پگڑیاں باندھیں اور علی الصبح عازم کوئٹہ ہوئے۔ رکتے رکاتے مچ کے قریب پہنچے تو ایک ٹرالر سے آگے نکلنے کی کوشش میں سامنے سے آتی ہوئی تیز رفتار کار سے تصادم ہو گیا۔ ابتدائی لمحات کے صدمے سے سنبھلا تو زمین پر پڑے پڑے اطراف پر نظر دوڑائی۔ کچھ فاصلے پر اللہ بخش سائیں سڑک پر اوندھے منہ پڑے تھے اور منہ سے بھل بھل خون بہہ رہا تھا۔ تشویش کی لہر اٹھی مگر سائیں نے نے اٹھ کر دل کو اطمینان بخشا۔ پھر اپنی جانب توجہ کی تو دیکھا کہ بائیں ٹانگ، ران کے وسط میں، ایک غیر قدرتی زاویے پر ایک سمت کو مڑی ہوئی ہے اور متاثرہ حصہ بھرپور طریقے سے مسلسل سوج رہا ہے۔ فورا اندازہ ہوگیا کہ میاں، ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔

اس وقت اس خادم کو پہلی ملازمت کرتے ڈیڑھ سال گزرا تھا۔ کیا مزے کا کام تھا۔ بلوچستان کے طول و عرض میں قریہ بہ قریہ، کُو بہ کُو پھرنا، کسانوں کے ساتھ ہفتوں ہفتوں رہنا، ان کی ترتیب کار اور حالاتِ زار سمجھنے کی خاطر ان کے ساتھ صبح سے شام کرنا۔ احباب اس خادم کی ذہنی صحت پر شک کا اظہار کرتے تھے کہ پاکستان کی درجہ اول کی جامعہ سے انجینیئرنگ جیسے شعبے میں ڈگری رکھنے کے باوجود یہ کوئی “سفید پوشوں” والا کام کیوں نہیں کرتا؟ یہ خادم دل ہی دل میں حافظ شیرازی کا شعردہرا کر طرح دے جاتا تھا کہ

ما در پیالہ عکسِ رُخِ یار دیدہ ایم۔۔

اے بے خبر ز لذتِ شُربِ دوام ما۔

انہیں اس لذتِ آشنائی میں شریک کرنا ذرا مشکل لگتا تھا کہ ہر روز ماحولیات، انسانی نفسیات اور سماجی روابط کی کسی نہ کسی نئی جہت سے روشناس ہونا کیسا روح افزا تجربہ ہوتا ہے۔ اس دولتِ بے پایاں پر مستزاد یہ کہ اس کام کی تنخواہ بھی ملتی تھی۔ مختصر یہ کہ اس کام کا ایسا چسکا لگ گیا کہ آج تک یہ خادم کسی نہ کسی شکل میں اس کام سے جُڑا ہوا ہے۔

سو، درہِ بولان میں اس لمحے ٹوٹی ٹانگ کے ساتھ زمین پر پڑے ہوئے بدترین نتائج کا اندازہ کرتے ہوئے خیال آیا کہ اگر ٹانگ نہ بچی تو اس دھندے سے تو ہمیشہ کے لیے فارغ خطی ہوجائے گی۔ متبادل روزگار کی بھی کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تھی۔ یہ سب ایسے میں کہ تب تک پُر امن ملک میں رہتا تھا، گھر گرہستی کے جھنجھٹ سے بھی آزاد تھا اور خرچے پانی کے لیے والدین کا دست نگر تھا، جو ماشا اللہ متوسط طبقے سے تھے۔ خدا یارِ دیرینہ ڈاکٹر ذاکر بلوچ کے دستِ شفا بخش میں برکت دے کہ ان کی جراحی کی بدولت یہ خادم ایک ماہ میں پیروں پر کھڑا ہوگیا اور رفتہ رفتہ پہلا سا، گاؤں گاؤں پھرنے کا معمول بھی بحال ہوگیا۔

اس طول طویل داستان سے قارئین کو بور کرنے کا موجب کل کا ایک مشاہدہ بنا۔ ذرا سوچیے کہ معذوری کا سانحہ، جنگ کے سبب ایک ایسے ملک میں پیش آیا ہوتا جو تباہ حال ہے اور یک طرفہ اقتصادی پابندیوں کے سبب ضروری ادویات تک درامد کرنے میں مشکلات سے دوچار ہے، تو معذوری کے شکار افراد کی ناامیدی کا کیا عالم ہوگا۔ شام میں آٹھ سالہ طویل خانہ جنگی نے جہاں اور بہت سے سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل پیدا کیے ہیں، وہاں ایک اندازے کے مطابق اس ملک کی بیس فی صد کے قریب آبادی، جو تقریبا تیس لاکھ نفوس بنتی ہے، جسمانی معذوری کا شکار ہو چکی ہے۔

یہ حقیقت پیش نظر رکھتے ہوئے کہ اس ملک میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم جنگ کے دوران بھی جاری رہی، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان میں سے اکثر معذوریاں جنگ کے سبب ہیں۔ اس خادم کا ادارہ اس مسئلے سے نمٹنے میں مقدور بھر کوشش کر رہا ہے۔ اگرچہ مسئلے کے پھیلاو کو دیکھتے ہوئے ہماری کوشش صحرا میں قطرے کے برابر بھی نہیں۔ کل اس خادم کا گزر ہمارے ادارے کے زیرِ اہتمام معذور افراد کی بحالی کے ایک مرکز پر ہوا۔ جہاں انہیں مصنوعی اعضاء لگائے جاتے ہیں اور ان کی جسمانی اور نفسیاتی بحالی کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہاں کے مناظر دیکھ کر بیک وقت شدید غم و غصے اور امید کی کیفیت پیدا ہوئی۔

مضمون کے ساتھ لف تصویر کو دیکھیے جس میں ایک نوجوان خاتون کو مصنوعی ٹانگ کے ساتھ چلنا سکھایا جا رہا ہے۔ اس بچی کا نام انجلیق عرف اینجی ہے۔ بیس سال کی ہے۔ دمشق کی یونیورسٹی میں مکینیکل انجینیئرنگ کی سال دوم کی طالبہ ہے۔ آج سے تیرہ ماہ قبل مشرقی غوطہ سے داغے گئے ایک راکٹ کی زد میں آکر اس کی ٹانگ اس بری طرح مجروح ہوئی کہ گھٹنے کے نیچے سے کاٹنا پڑی۔ اس کے بقول وہ چھے ماہ تک شدید نفسیاتی اختلال اور ناامیدی کا شکار رہی۔ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اب مصنوعی ٹانگ کے سہارے زندگی گزارنے کا فن سیکھ رہی ہے۔ زبان میں ذرا سی لکنت باقی ہے جو اس سانحے کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ علاج جاری ہے۔

دوسری تصویر میں دس سالہ بچہ خضر ہے۔ سکول سے لوٹتے ہوئے اس کا پاوں بارودی سرنگ پر آگیا۔ اسے کئی سال تک علاج اور بحالی سے گزرنا پڑے گا۔ اس مرکز میں مصنوعی اعضاء بنانے کی ماہر شذہ بی بی کے بقول یہ وہ لوگ ہیں جن کا علاج معمولی خرچ سے ممکن ہے اور ان میں سے بھی مٹھی بھر۔ پیچیدہ تر کیسز کو معذرت کے ساتھ لوٹا دیا جاتا ہے کہ وہ اس مرکز کی بساط سے باہر ہیں۔ اہلِ وطن، خصوصا “سبیلنا سبیلنا” کی طرز کے نعرے لگانے والوں کے لیے اس میں جو پیغام مضمر ہے وہ ساحر لدھیانوی کے بقول فقط یہ ہے۔۔

اے شریف انسانو

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسلِ آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امنِ عالم کا خون ہے آخر

 

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر

روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے

زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

 

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میّتوں پہ روتی ہے

 

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

 

اس لئے اے شریف انسانو!

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).