عظیم شاعرہ مایا اینجلو کا بچپن، جنسی تشدد اور ٹراما سے رہائی


Maya Angelou, portrait, Boston, for Random House (ca 1998)

اس مسلسل لب بستہ کیفیت سے مایوس ہو کر وہ ایک بار پھر دادی کے پاس آرکنساس پہنچا دی گئیں۔ یہاں ان کی ملاقات مسز فلاور سے ہوئی۔ جو ایک تعلیم یافتہ، محبتی، ایفرو امریکی خاتون تھیں۔ انہوں نے خاموش مایا کے اندر مطالعہ کے بیج بوئے۔ اپنے ایک انٹرویو میں مایا اینجلو نے بتایا کہ ان پانچ سالوں میں انہوں نے شیکسپئیر کے لکھے ڈرامے اور پچاس سونیٹ زبانی یاد کر لیں۔ موپاساں، بالزک، ریڈ یارڈ کپلنگ اور ایڈگر ایلن جیسے لکھنے والوں کی شاعری ازبر کر لی۔ اس طرح زبان کی تالا بندی کے دوران ادب میں یاداشت کے در یچے کھلتے گئے اور ذہنی صحت کی بحالی اور بلوغت پہ منفی اثر نہیں ڈالا۔ کتابوں کے مطالعہ نے انہیں اپنے خول سے نکلنے اور اپنے اندر کے قید خانے سے نکلنے میں مدد دی اور لکھنے کا شوق پیدا کیا۔ اس طرح مایا نے پہلی نظم نو برس کی عمر میں لکھی۔

گو اس ٹراما سے نکلنے کے بعد انہوں نے زندگی کے بیشتر مسائل کا سامنا کیا مثلا سترہ برس کی عمر میں بیٹے کی ماں بن کراسے اکیلے پالا اور ملازمت کے ساتھ تعلیم جاری رکھی۔ نیز نسلی اور صنفی تفریق کے دور میں وہ پہلی ایفرو امریکی کے طور پہ سان فرانسسکو میں اسٹریٹ کار کنڈیکٹر کے طور پر سولہ سال کی عمر میں نوکری شروع کی۔

اسوقت جب افریقی نسل کو سفید نژاد یورپین امریکنوں کے ہاتھوں حقارت، ذلت اور ہزیمت کا سامنا تھا اور بطور ایفرو امریکی بالخصوص عورت کی زندگی کی تصویر کو سچائی سے پیش کرنا جراتمندی تھی۔ مایا اینجلو نے اپنی شاعری اور سوانح عمری سے نہ صرف ایفرو امریکنوں کو شناخت اور طاقت دی۔ بلکہ انہوں نے اپنی زندگی کے کسی المیہ کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا بلکہ آزادی کی جدوجہد میں مارٹن لوتھر کنگ اور مالکم میکس کی تحریکوں کا بھی بھرپور ساتھ دیا۔

1969 میں ان کی سوانح عمری کی اشاعت نے ثابت کر دیا کہ رنگ و نسل کی بنیاد پہ کسی کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔ اپنی تحریر سے ظلم و زیادتی کو چیلنج کرنے والی اور مظلوموں کی آواز بننے والی مایا اینجلو نے بیشمار ایوارڈز حاصل کیے۔ اور چھیاسی برس کی عمر میں 28 مئی 2014 میں بہادری سے جاری زندگی کے سفر کا اختتام کیا اور اپنے اس پیغام کے ساتھ کہ زندگی کے صدمے جھیلنے کے باوجود آپ فتح مندی کی علامت بن کر فضاؤں میں اونچے اڑ سکتے ہیں۔

ذیل میں ان کی مشہور نظم (Still I Rise) سے ایک منتخب اقتباس کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے جو مشہور شاعرہ شاہدہ حسن نے ترجمہ کی۔
تم مجھے اپنے الفاظ سے گولی مار سکتے ہو
تم مجھے اپنی نگاہوں کی تیزی سے
ٹکڑے ٹکڑے کر سکتے ہو
تم مجھے اپنی نفرتوں کی انتہا سے
قتل کرسکتے ہو
مگر پھر بھی میں
ہواؤں کی طرح،اونچی اڑوں گی

(امریکہ میں اپریل کو جنسی تشدد سے متعلق آگہی اور حفاظتی اقدامات کا مہینہ SAAM۔ Sexual Assault Awareness Month قرار دیا گیا ہے۔ ۔ اس حوالے سے ایک تحریر )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2