رفیع پیر تھیٹر کا سترہواں صوفی میوزک فیسٹیول


رفیع پیر تھیٹر کے زیرِانتظام ہر سال لاہور میں صوفی میوزک فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے۔ جس میں ملک کے نامور صوفی اور فوک گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس دفعہ یہ سترہواں صوفی میوزک فیسٹیول 18، 19 اور 21 اپریل کو پیکجز مال میں منعقد کیا گیا۔ جس میں جن صوفی اور فوک گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ان میں حدیقہ کیانی، شفقت امانت علی، سائیں ظہور، صنم ماروی، پپو سائیں ڈھولیا، کرشن لال بھیل، شیر میانداد قوال، ابو محمد، فرید ایاز قوال، سچل آرکیسٹرا، خمیاران بینڈ، اختر چنال زہری، تحسین سکینہ، اور عابدہ پروین جی شامل تھے۔ ان سب فن کاروں نے کمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سب سننے والوں کے دلوں کو خوب جلا بخشی۔

کچھ عوامل کی وجہ سے اس دفعہ کا صوفی فیسٹیول پچھلے ہونے والے فیسٹیولز سے تھوڑا مختلف تھا۔ ایک چیز تو اس کی جگہ کی تبدیلی تھی۔ اس سے پہلے یہ قذافی سٹیڈیم کے ساتھ منسلک الحمراء کلچرل کمپلیکس میں منعقد کیا جاتا تھا۔ جس کا دلکش ڈیزائن، خوب صورت سٹیج اور وہاں پر نیچے بیٹھنے کا انتظام اس فیسٹیول کو چار چاند لگا دیتے تھے۔ مگر اس دفعہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے اس کو پیکجز مال میں منعقد کیا گیا۔ جہاں پر انتظامیہ کی طرف سے اسٹیج تھوڑا بہتر بنایا گیا مگر بیٹھنے کے لیے کرسیوں کا انتظام کیا گیا جس سے اتنا لطف نہ آسکا۔ کیونکہ قوالی اور صوفی موسیقی سننے کا مزا تو سکون سے نیچے بیٹھ کر ہی دوبالا ہوتا ہے۔

پھر الحمراء کلچرل کمپلیکس کا ڈیزائن گولائی میں ہونے اور اس میں سٹیڈیم کی طرح سیڑھیاں ہونے کی وجہ سے سب دیکھنے والوں کے لیے سٹیج کا منظر ایک جیسا دِکھتا تھا۔ جبکہ یہاں پر پیکجز مال میں جو لوگ آگے بیٹھے ہوئے تھے وہ تو با آسانی اسٹیج پر پرفارم کرنے والوں کو دیکھ پا رہے تھے مگر جو لوگ پیچھے تھے ان کو بالکل بھی صحیح نظر نہیں آرہا تھا۔ اس کے ساتھ اس دفعہ ساونڈ کوالٹی کی طرف بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی تھی اور پہلے کی نسبت ساونڈ کوالٹی خراب تھی۔

دوسری بات جو اس دفعہ کے فیسٹیول میں مختلف تھی وہ اس کی ٹکٹس حاصل کرنے کا طریقہ کار تھا۔ گزشتہ منعقد ہونے والے فیسٹیولز کے لیے ٹکٹس رفیع پیر تھیٹر انتظامیہ کی طرف سے بتائے گئے دو، تین مقامات سے ایونٹ شروع ہونے سے پہلے اور الحمراء کلچرل کمپلیکس کے باہر سٹال سے فیسٹیول کے دنوں میں خریدے جا سکتے تھے۔ اور اپنی مرضی کے مطابق جتنے دن فیسٹیول میں جانا ہوتا تھا اس حساب سے ٹکٹ خرید لیے جاتے تھے۔ مگر اس دفعہ چونکہ یہ پیکجز مال میں منعقد ہو رہا تھا اس لیے انتظامیہ کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر آپ پیکجز مال سے پانچ ہزار کی خریداری کریں گے تو ہی آپ کو فیسٹیول کی ٹکٹس ملیں گی۔ اور یہ ٹکٹس ایک فرد کے لیے ہوں گی اور ایونٹ کے تینوں دنوں کے لیے ہوں گی۔ اس سے یہ مسئلہ ہوا کہ اگر کسی نے خریداری نہیں بھی کرنی تھی تو اس کی مجبوری بن گئی اور اگر کسی نے ایک یا دو دن فیسٹیول میں جانا تھا تو اسے بھی پانچ ہزار ہی خرچ کرنا پڑ رہے تھے۔ اس طرح کے فیسٹیول کے ٹکٹس کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں ہونی چاہیے۔

تیسری بات جس نے اس ایڈیشن کو پچھلے ایڈیشنز سے منفرد بنایا وہ اس میں عابدہ پروین جی کا اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا۔ عابدہ جی کے بارے میں گلزار صاحب فرماتے ہیں، ”صوفیوں کا کلام گاتے گاتے عابدہ پروین خود صوفی ہو گئی،

اُن کی آواز اب عبادت کی آواز لگتی ہے، مولا کو پکارتی ہیں تو لگتا ہے ہاں! ان کی آواز اُس تک ضرور پہنچتی ہو گی، وہ سنتا ہو گا، صدق صداقت کی آواز ”۔ اور جب عابدہ جی کو براہِ راست سننے کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی تو واقعی لگا کہ ان کی آواز عبادت کی آواز ہے اور جب وہ مولا کو پکار رہی تھیں تو ان کی آواز مولا تک پہنچ رہی تھی اور دل کو چھو کر کسی اور ہی دنیا میں لے کر جا رہی تھی۔ عابدہ جی نے آخری دن ڈیڑھ گھنٹہ پرفارم کیا جو کہ ان کے حساب سے بہت کم وقت تھا اس لیے تشنگی رہ گئی۔ لیکن ایسے بھی لوگ تھے جو بجائے سکون سے سننے کے شور مچاتے رہے، سیٹیاں مارتے رہے، ان کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ شاید وہ عابدہ پروین کو نہیں سن ریے بلکہ کسی پاپ سٹار کے کنسرٹ میں آئے ہوئے ہیں۔

ایک اور روایت جسے ہماری قوم نے اپنا لیا ہے کہ کہیں بھی جائیں گے چاہے کوئی خوب صورت صحت افزا مقام ہو، کوئی ریسٹورنٹ ہو یا کوئی ایونٹ، تو بجائے اس جگہ یا ایونٹ کی روح کو محسوس کرنے کے تصویریں اور ویڈیوز بناتے رہتے ہیں۔ اس فیسٹیول میں بھی یہ دیکھنے کو ملا کہ تینوں دن لوگ ویڈیو بنانے، سیلفیاں لینے میں مصروف نظر آئے۔ اس روایت کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

آخر میں رفیع پیر تھیڑ کی کاوششوں کو سراہا جانا ضروری ہے جو اتنے سالوں سے ہر سال یہ صوفی میوزک فیسٹیول منعقد کروارہے ہیں۔ جو سفر فیضان اور سادان پیرزادہ نے مل کر شروع کیا تھا، فیضان کے چلے جانے کے بعد سادان اسے اسی ولولے کے ساتھ کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بس ان سے التماس ہے کہ وہ دوبارہ حکومتی نمائندوں سے بات کر کے اس فیسٹیول کو الحمرا ء کلچرل کمپلیکس یا اس طرح کی کسی جگہ پر منعقد کریں اور ٹکٹس کے لیے کوئی شرط نہ رکھیں تاکہ اس کی انفرادیت قائم رہے اور یہ کمرشلزم کا شکار نہ ہو۔ اور صوفی موسیقی سے شغف رکھنے والے ہم جیسے لوگ اسی طرح اس کی روح کو محسوس کرتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).