قبائلستان صوبہ ناگریز، آواز دبانے کی کوشش حماقت ہو گی


قبائلی علاقہ جات یا وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات فاٹا پاکستان کے قبائلی علاقہ جات چاروں صوبوں سے الگ حیثیت رکھتے تھے اور یہ وفاق کے زیر انتظام تھے۔ مئی 2018ء میں ہونے والی ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ان علاقوں کی قبائلی حیثیت ختم کر کے ان کو صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کر دیا گیا۔ قبائلی علاقہ جات 27 ہزار 220 مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ مغرب میں قبائلی علاقہ جات کی سرحد افغانستان سے ملتی ہیں جہاں ڈیورنڈ لائن انہیں افغانستان سے جدا کرتی ہے۔ قبائلی علاقہ جات کے مشرق میں پنجاب اور صوبہ سرحد اور جنوب میں صوبہ بلوچستان ہے۔ قبائلی علاقہ جات کی کل آبادی دوکروڑ ہے جو پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا دو فی صد بنتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں لوگ مختلف پشتون قبائل میں تقسیم ہیں۔

سات ایجنسیوں جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، کرم ایجنسی، خیبر ایجنسی، مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی اور کرزئی ایجنسی پر مشتمل علاقوں جس کی سرحدیں چودہ سو کلومیٹر پر محیط ہیں۔

قبائل کی اکثریت ان علاقوں کو صوبائی حیثیت دینے کی خواہش مند ہے۔ صوبے کی مانگ کرنے والوں میں قبائلستان تحفظ موومنٹ نمایندہ جماعت ہے اور متحرک اور فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ جس کے چیئرمین سید نذیر اور مرکزی صدر سردار اصغر آفریدی اعلی تعلیم یافتہ اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والی شخصیات ہیں۔ صوبے کی مانگ اور رد انضمام پر مدلل اور مضبوط موقف رکھتے ہیں۔ اسی طرح قبائل قومی تحریک کے سربراہ جان آفریدی، فاٹا یوتھ الائنس، فاٹاگرینڈ الائنس سمیت چھوٹے گروپ صوبے کی مانگ کر رہے ہیں۔

سردار اصغر آفریدی نے قبائلستان کو قومی وحدت کی پانچویں اکائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے کی مانگ آئینی اور قبائلی کا بنیادی حق ہے جب کہ انضمام کا فیصلہ رات کے اندھرے میں عجلت میں مسلط کیا گیا جو غیر آئینی اور قبائل کے ساتھ نا انصافی ہے۔ انضمام کو مسترد کرتے ہیں اور کسی طور قبول نہیں ہے۔ قبائل صدیوں سے اپنے فیصلے خود کرتے آئے ہیں۔ قبائلی جرگہ ایک خوب صورت روایت ہے۔ اس کے برعکس لاہور میں بیٹھ کر بادشاہی انداز میں انضمام کا فیصلہ سنا دیا گیا اور نافذ بھی کر دیا ہے۔

فیصلہ کرتے وقت قبائل سے مشاورت کی گئی اور نہ ہی اعتماد میں لیا گیا۔ احمق حکمران شاید بھول کے قبائل اپنی مرضی کے بغیر مسلط کردہ جنت بھی قبول نہیں کرتے ہیں۔ تمہارا فیصلہ انضمام تو غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے۔ قبائل کی اپنی روایات کی تاریخ ہے۔ محب وطن پاکستانی ہیں جنہوں سیاسی راستہ اختیار کیا ہے۔ عقل اور دانش مندی کا تقاضا ہے کہ قبائل کی خواہش اور مانگ کے مطابق قبائلستان کو صوبائی حیثیت دی جائے۔ قبائل کا یہ آئینی، سیاسی اور قانونی حق ہے۔

حق حکمرانی اور فیصلوں کا اختیار قبائل کا بنیادی حق ہے۔ راولپنڈی، لاہور، پشاور اور اسلام آباد میں بیٹھ کر قبائلی علاقوں پر حکمرانی کا دور گزر چکا ہے۔ وفاقیت کی فیڈریشن یا کنفیڈریشن اور بھی علاقائی بنیادوں پر قائم رہ سکتی ہے۔ وفاق کی ریجنلائزیشن کرنا ہو گی۔ بصورت دیگر اک مضبوط وفاق کا تصور ممکن نہیں ہو گا۔ ارباب اختیار قبائلستان کے حالات سے بخوبی واقف ہیں۔ جس پر پشتون تحفظ موومنٹ بھی چیخ رہی ہے۔ طاقت، بندوق اور پردہ پوشی سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں بلکہ مزید گہرے ہوتے ہیں۔

اک وقت ایسا آتا ہے کہ پھر مسائل کے حل کے لئے اٹھنے والی آوازیں اور مطالبات کوئی اور شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ پے در پے آپریشن، جنگ، ڈرون حملے، طالبان کی دہشت گردی اور بھوک اور ننگ کے ستائے قبائلی عوام کو مایوس مت کرنا۔ مایوسی بہت بڑا گناہ اور جرم بن جاتی ہے۔ قبائلی عوام کی آواز سنی جائے۔ قبائلستان صوبہ دیا جائے۔ صوبے کی آواز قبائلیوں میں سرایت کر چکی ہے۔ جس کو ختم کرنا یا دبانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو گا۔ صوبے کی آواز دبانے کی حماقت ہرگز ہرگز نہ کی جائے۔ قبائل امن اور سلامتی چاہتے ہیں۔ زمینی حقائق اور قبائل کے تیور بتاتے ہیں کہ اب قبائلستان صوبہ نا گزیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).