لڑکیوں کا تحفظ: کوئی بتائے گا کیا


سات سال کی زینب کا قصہ ابھی زیادہ پرانا نہیں ہوا، ہاں بس اچھا یہ ہوا کہ اُس ریپیسٹ کو سزا ہو گئی۔ وجہ یہ کے وہ ان پڑھ تھا غریب بھی، اور کہا یہی گیا کہ غربت اور جہالت نے اُسے ایسا بنا دیا تھا، کہ وہ معصوم کلیوں کو مسلتا پھرے۔

جہالت، غربت اکثر انسانیت سے گرے ہوے کام کرواتی ہے، پر میں یہ بات نہیں سمجھ پا رہی کے عصمت جونیجو کو قتل کرنے والے تو کوالیفیائڈ ڈاکٹر ہیں۔ یہ کیسے مسیحا ہیں، میڈیکل کالج، یہ کیسے جاہل پروان چڑھا رہے ہیں، جو انسان کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہوس اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ دوا لینے آنے والی لڑکی کو دیکھتے ہی کوالیفیائڈ ڈاکٹر خود پہ قابو نہ رکھ سکے۔ وہ جو لوگ کہتے ہیں ناں، لڑکی ہی ایسی ہو گی کچھ کیا ہو گا، لباس بھی تو ایسا پہنتی ہیں لڑکیاں، کیا وہ بتا سکتے ہیں کوئی دانت درد میں کیسے کسی کا دل لبھا سکتا ہے؟ اور سامنے والا اُس وقت مسیحائی کا کام سر انجام دینے کے لیے بیٹھا ہوا ہو۔ یا آج کل کوٹھے ختم ہو کر اسپتال بن گئے ہیں، جہاں عورت تکلیف میں آتی ہے تو اُسے دبوچ لیا جاتا ہے؟

اور کیا بگاڑا تھا نشوہ نے وہ تو نومولد بچی تھی، کہ اُسے انجکیشن غلط دے دیا۔ مسیحائی کے مرتبے پہ فائز قصاِئیوں کو پہچانا کیسے جاِئے۔ ایک ان پڑھ، جاہل اور پڑھے لکھے میں کیا فرق رہ گیا ہے، جب کہ دونوں ہی عورت کو دیکھتے ہی رال ٹپکاتے ہیں اور پھر زینب، عاصمہ، نشوہ اور نہ جانے کتنوں کو روندتے ہیں۔ کون بتائے گا؟ کیونکہ آج کل ڈگریاں انسانوں کی کھال میں چھپے جانورں کو مل رہی ہیں۔ ان پڑھ تو یوں ہی بد نام ہیں۔ وہ مسیحا جو اس بات کی قسم لیتے ہیں کہ انسانیت کی خدمت کریں گے، وہی قصائی بن بیٹھے ہیں۔

اب صرف انصاف کی دہائی کافی نہی۔ ہیش ٹیگ کے سلوگن نا کام ہیں۔ یا ابھی مزید غفلت کی چادر اوڑھے رکھنی ہے کے ہمارے گھر کی بیٹی سلامت ہے، دوسرے کی بیٹی کا ہم کیا کریں۔ ہو سکتا ہے وہ خود ہی خراب ہو۔ جیسا کہ پہلے کہا کے گھر گھر کی کہانی ہے، تو کبھی اپنی سلامت بیٹیوں سے پوچھ لیے گا، ہو سکتا ہے وہ آپ کی نام نہاد عزت کے ڈر سے خاموش ہوں۔ ہو سکتا ہے تشدد جسمانی نہ ہو، کیونکہ وہ عاصمہ، زینب، قندیل، نشوہ کی طرح مر نہیں سکیں تو آپ اُنھیں زندہ سمجھ بیٹھے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).